کالم

ذکر کچھ بچھڑنے والے دوستوں کا : ناصر علی سید

نہ فکر نیند کی ہمیں نہ جاگنے کی آرزو
شیدو کا تاریخی قصبہ میرے گاؤں اکوڑہ خٹک سے قریب پانچ کلو میٹر دور ہے، والد گرامی آغا جی سید دلاورشاہ نوراللہ مرقدہ اور بڑے بھائی پشتو کے معروف شاعر اور وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر فلمز اینڈ پبلیکیشنز سید اعجاز بخاری مرحوم بھی ابتدا میں اسی قصبے میں درس و تدریس سے جڑے رہے۔ میں بھی بھائی کے ساتھ سائیکل پر کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ مجھے یہ قصبہ ہمیشہ سے اچھا لگتا ہے، والد گرامی کے حلقہئ اردات میں شامل کچھ نام اب بھی یاداشت میں محفوظ ہیں جن میں قیصر خان اور رئیس خان بھی شامل ہیں، اکوڑہ خٹک ہائی سکول میں میرے اردو کے ٹیچر اشراف الدین کوبھی کبھی نہیں بھولتا،اشعار کو پڑھنا اور ان کی تشریح کا انداز اب بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔ پھر اسی قصبے کے کچھ سکول اور کلاس فیلوز بھی مجھے یاد ہیں، جن میں ہلال الدین اشراف، فاروق خٹک جمشید خان شکیل خان،ریبت خان،عزیز الرحمن،حبیب الرحمن اور بھولی بھالی صورت والے سید انور بھی شامل ہیں، مگر یہ ”نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں،“ کچھ اور چہرے بھی آنکھوں میں پھر رہے ہیں مگر فراز نے کہا ہے نا کہ
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے
پھر شیدو ٹیم کے ساتھ ایک دوستانہ کرکٹ میچ بھی یاد ہے جس میں تین چھکوں کی مدد سے نصف سنچری سکور کی تھی،مگر پھر وقت کی آندھی نے سب کو اڑا کر اور یہاں وہاں پھینک کر ایک دوسرے سے دور کر دیا،بعد کے زمانوں میں جو اس قصبے کے دو تین دوستوں سے رابطہ رہا ان میں ایک تو پروفیسر رئیس خان ہیں جو نوشہرہ کالج میں کولیگ بھی رہے پھر جمشید خان اور پروفیسر عالمزیب تھے ہم وزارت اطلاعات و نشریات میں اکٹھے رہے ان دنوں میں اسی وزارت کے پشتو ماہنامہ کاروان کا ایڈیٹر تھا۔ پھر ستر کی دہائی کے آخر آخر میں پہلے عالمزیب اور پھر میں نے بھی ’’ لیکچرشپ“ جوائن کر لی۔پھر ایک بہت ہی نفیس،ہنس مکھ اور سرخ و سفید چہرے والے جوان رعنا پشتو شاعر نو بہار شاہ خٹک سے ایک بار خانہ فرہنگ ایران پشاور کے مشاعرے میں ملاقات ہو گئی، بہت محبت سے ملے، پہلی ملاقات ہی میں گھل مل گئے کیونکہ وہ اکوڑہ خٹک میں میرے پورے کنبہ کو جانتے تھے، خصوصا بڑے بھا ئی مرحوم اعجاز بخاری سے ان کے قریبی مراسم تھے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ”شیدو“ کے ہیں تو بہت اچھا لگا، پھر دو ایک دہائی تک وہ آئے دن ادبی محافل میں شرکت کے لئے آتے تو ملاقات ہوتی، ایک دن کہنے لگے میری فیملی میں ایک بچی ہے عمدہ شعر کہتی ہے اور کتاب چھپوانا چاہتی ہے،آپ اس پر چند سطریں لکھ دیجئے یا کم از کم نظر ثانی ہی کر دیجئے۔ وہ مسودہ لے آئے مجھے حیرانی ہوئی کہ وہ کلام اردو کا تھا اور بچی کی عمر بارہ تیرہ سال تھی۔ پھر وہ کتاب چھپی،کتاب کا نام یاداشت میں محفوظ نہیں شاید سیاہ رنگ کا ٹائٹل تھا اور اس پر بھیگی آنکھ کا سکیچ تھا، شاعرہ کا نام غالباََ’عم ّیوسف“ تھا۔ لگ بھگ دس بارہ برس پہلے جب میں ایک نجی پشتو چینل سے ہفتہ وار ادبی شو ”خبرہ دہ کتاب “ شروع کیا میں، اس شو میں صاحب کتاب شعرا و ادبا سے مکالمہ کیا کرتا تھا،نو بہار شاہ خٹک سے بھی بات ہوئی تو مجھے ”عم یوسف“ یاد آئی، پوچھا شعر و شاعری سے اب بھی رشتہ ناتا ہے،کہنے لگے کہ جی بالکل توبہت دل چاہا کہ اس سے بھی مکالمہ ہو سکے،نو بہار شاہ خٹک نے وعدہ بھی کیا مگر ممکن نہ ہوا ایک دن میں نے شکایتا کہا تو کہنے لگے، کچھ مشکلات ہیں، میں سمجھ گیا شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد ترجیحات کا تعین سسرال کے مزاج کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ جب میں نے کچھ عرصہ قبل اسی نجی چینل پر کوئی دس برس بعد ”ادبی ٹولنہ“ کے نام جب ادبی شو شروع کیا، تو ایک دن نو بہار شاہ خٹک کا فون آیا اور شو کی تعریف کی،میں نے دعوت دی توچند ثانیہ کی خاموشی کے بعد گلو گیر آواز میں کہنے لگے،میں تو بہت عرصہ سے بیڈ پر ہوں،پھر جانے وہ کیا کچھ کہتے رہے مگر میں رسما ہوں ہاں کرتا رہا میری آنکھوں کے سامنے سرخ و سفید،تر و تازہ اور تندرست و توانا اپنی خوبصورت مسکان کے ساتھ جواں رعنا نو بہار شاہ خٹک گھوم رہا تھا۔ اب کے میں نے وعدہ کیا کہ جب بھی گاؤں آیا تو حاضر ہوں گا۔شیدو ہی کے نجی چینل اور جہانگیرہ پریس کلب کے ایک اور مہربان جرنلسٹ دوست محمود الحسن (شہید جرنلسٹ نورالحسن کے بڑے بھائی) سے بھی کچھ عرصہ پہلے دوستی شروع ہوئی، بلا کے ہمدرد اور ملکی مسائل پر دلسوزی سے بات کرنے والے ادب دوست ہیں ہفتہ میں دو تین بار ان کا فون آتا ہے،کبھی کسی خبر پر اور اکثر احباب کے کالمز پر گفتگو اور بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں،مگر گزشتہ دن ان کا پہلے میسج اور پھر فون آیا۔کہنے لگے کہیں سے اچھی خبریں نہیں مل رہیں، آپ نو بہار شاہ خٹک کو جانتے ہیں،میرے جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگے، وہ بھی چل بسے، ایک عرصے سے صاحب فراش تھے۔ بہت بیمار تھے میں یہ بھی نہ کہہ سکا کہ کہ مجھے علم ہے اور مجھے ان کی عیادت کے لئے شیدو آنا تھا۔ اس طرح مجھے ایبٹ آباد سے گزشتہ ہفتے خویشکی کے سید الامین کا فون آیا، میری ان سے ملاقات نہیں ہے،انہوں نے تعارف کرایا اور کہا کہ آپ پشتو شعر وادب کے معروف و ممتاز تخلیق کار ہمایوں ہمدرد کو جانتے ہیں،میں نے کہا کیوں نہیں، بلا کے مہربان اور شفیق دوست ہیں اور میرے چھوٹے بھائی سید ناظم علی شاہ کے جب دو جواں سال بچے ”ہلال اور اجلال“ دریا برد ہوئے تھے تو ان کے چہلم کے
مو قع پر اپنی خاندانی روایت کے مطابق ہم نے شعر و سخن کی مجلس کا اہتام کیا تھا، جس میں پشتو،ہندکو، اردو اور فارسی زبان کے شعرائے کرام نے بچوں کی درد ناک سانحہ کے حوالے سے مرثیے پڑھے تھے، ہمایون ہمدرد نہ صرف شریک ہوئے تھے بلکہ اس موقع پر پڑھے گئے ساری زبانوں کے مراثی کو یکجا کر کے کتابی شکل میں ”ساندے“ کے نام سے شائع کر کے ناظم علی شاہ کو لاکر دے دئے تھے۔ سید الامین نے کہا کہ جی وہ ایسے ہی محبت کرنے والے ہیں لیکن گزشتہ کل ان کو برین ہیمرج ہو گیا ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں،احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے، گزشتہ ادب سرائے میں احباب سے دعا کی استدعا کی گئی اور سیدالامین نے گزارش کی کی کہ ہمایون ہمدرد کے حوالے سے کچھ تھریر کر دیں انہوں نے حامی بھی بھر لی مضمون بھی لکھ لیا،بھیج بھی دیا جو آج کی اشاعت میں شامل بھی ہے مگر ہمایون ہمدرد کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا،وہ احباب کو بلکتا چھوڑ کر چل دئیے، شاعر، ادیب، مترجم،افسانہ نگار اور ریڈیو ٹی وی کے لئے ان گنت ڈرامے لکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر ہمایون ہمدرد ادبی محافل میں بھی بہت کم گو اور اپنی منکسرالمزاجی کی چادر اوڑھ کر شرکت کرنے والے تھے، میرے ادبی شو ’خبرہ دہ کتاب‘ میں جب آئے تھے تو ان سے فیض احمد فیض کے حوالے سے ایک عمدہ مکالمہ ہوا تھا۔ انہوں نے نقش فریادی کا پشتو ترجمہ بھی کیا تھا۔ یہ وبا کے دن ہیں اور اس کی وجہ سے بھی بہت سے احباب کے بارے میں دل دکھانے والی خبریں مل رہی ہیں، حسن ابدال کے جواں فکر نعت گو شاعر،ادیب محقق اور سچے عاشق رسول ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش کا تین چار ہفتے پہلے فون آیا تھا کہ وہ کرونا کی وبا کے دنوں میں لکھی گئی شاعری کے حوالے سے ایک مقالہ لکھ رہے ہیں اس کے لئے اپنی نظم یا غزل ارسال کیجئے میں نے بھیج دی ان کا مقالہ ایک معاصر ادبی صفحہ میں قسط وار شائع ہونا شروع ہو چکا تھا ابھی دو دن پہلے مجھے وٹس ایپ پر تازہ قسط بھیجی جس میں میری نظم پر ان کا تبصرہ تھا،کل میں نے کال بیک کی تا کہ شکریہ ادا کروں مگر گھنٹی جاتی رہی،فون اٹینڈ نہیں ہوا۔ میں اسے معمول کی کاروائی سمجھا اور سوچا کہ مصروف ہوں گے اور بدھ کی سویر فیس بک پر کسی دوست کی پوسٹ تھی کہ ڈاکٹر ذوالفقار دانش بھی چل بسے، یقین نہیں آیا تو نور حکیم جیلانی کو کال کی انہوں نے کنفرم کیا کہ جواں فکر شاعر و دانشور دل کے دورہ کی وجہ سے رخصت ہو گئے۔ کچھ دن پہلے دوست عزیز اور معروف شاعر افراسیاب کامل کی فیس بک پر مختصر پوسٹ دیکھی،”سب ختم ہو گیا کرونا۔ ماں مر گئی“ کرونا کے دوران احباب کے منع کرنے کے باوجود وہ ماں کے بہت قریب رہے، اور ماں کے بچھڑنے کے بعد وہ ایک ہفتہ عشرہ بھی نہ رہ سکے،اراسیاب بھی بہت محبت کرنے والے دوست تھے، کچھ ہی عرصہ پہلے ہری پور میں ایک نشست میں مجھے شریک ہو نا تھا تو راوالپنڈی سے دوست مہربان سید ماجد شاہ کے ہمراہ آئے تھے کہنے لگے آپ کے آنے کا سنا تو رہ نہ سکے اور چلے آئے۔ مجھے یاد ہے کہ نیو یارک میں ڈاکٹر محمد شفیق سے ان کے حوالے سے بہت گفتگو ہوتی رہتی ہے،خصوصا جب ”حلقہ ارباب ِ ذوق نیو یارک کی ابتدا کی بحث چلتی ہے تو وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ پودا پہلے پہل افراسیاب کامل نے لگایا تھا۔ ان دنوں وہ اپنا شعری مجموعہ ترتیب دے رہے تھے،مگر کرونا کی شدتوں نے جب بے حال کیا تو ماجد شاہ سمیت کچھ دوستوں کے حوالے یہ کام کر کے ہمیشہ کے لئے چپ ہو گئے، افراسیاب کمال نے کہا ہے کہ
ابھی سے نیند آ گئی چراغ ِ شب تجھے مگر
ابھی تو ایک ان کہی میری تمام رات ہے
نہ فکر نیند کی ہمیں نہ جاگنے کی آرزو
عجب مقام دن یہاں عجب مقام رات ہے
یہ چاندنی ہے فرش پر کسی حسیں کے پاؤں کی
غزل چھڑی ہوئی ہے اور یہ ہم کلام رات ہے

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی