کالم

ذرا فاصلے سے ملا کرو : ڈاکٹر اسد مصطفیٰ

دنیا کے گلوبل ولیج بننے کی خبر اکیسویں صدی کی سب سے بڑی خبر تھی۔یہ گلوبل ولیج اپنے ساتھ بہت سے تحفے لایا تھا۔ سب سے بڑا تحفہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وہ سیلابی لہریں تھیں جو تاحد نگاہ خشکی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔یہ ٹیکنالوجی اب ہر فرد کی ضرورت بن چکی ہے۔کوئی چاہیے بھی تو اس سے دور نہیں رہ سکتا۔یہ اپنے سے دور بھاگنے والے کے دل پر حملہ آور ہوتی ہے،سو محفوظ وہی رہ سکتا ہے جو حدیث شریف کے مطابق ”اپنی بکریاں لے کر پہاڑوں کی بلندیوں کوچھو لے“مگر ایسے چند ایک ہی ہوں گے،سو اس بہتی گنگا میں اشنان ہر ایک کا مقدر بن گیا ہے۔اکیسویں صدی کے ان تحفو ں میں ایک تحفہ میڈیا وار اور اس کی یلغار ہے۔اس یلغار سے بھی کوئی گھر محفوظ نہیں ہے۔بچے سے لے کر بوڑھے تک گھر کا فرد فرد خبرناک بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کرونا وائرس کا جسموں سے زیادہ وار ذہنوں پر ہوا ہے۔ویسے تو ابھی تک کی رپورٹس کے مطابق اسی ہزار سے ایک لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن کرونا کے خوف میں مبتلا لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سکول کالج،دفاتر،کاروباری مراکز،یہاں تک کہ گلی محلے ویران ہوگئے ہیں۔لوگ گھروں میں دبک گئے ہیں۔ایک انجانا ساخوف طاری ہے۔گھر سے محلے اور بازار تک۔یہی خوف ہی ہوتا ہے جو ڈپریشن کی وجہ بنتا ہے۔احتیاط لازم ہے مگر ڈپریشن بھی کرونا سے کم مرض نہیں ہے۔ یہ ڈپریشن بھی عام ڈپریشن نہیں ہے بلکہ موت کا خوف ہے اور یہ خوف انسان سے اس کی تمام توانائیوں اور عزم وارادے کی قوت چھین لیتا ہے۔کرونا وائرس کے متعلق ایک نظریہ یہ سامنے آیا تھا کہ یہ سانپ، چوہے،چھپکلی،بندراور ان جیسے جانوروں سے پھیلا ہے۔انہیں ہمارے مذہب نے حرام قرار دیا ہے مگر چینی انہیں بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور نظریہ،یہ معلوم ہوا کہ یہ لیبارٹری میں جنریٹ کیا ہوا وائرس ہے جسے چین کی ہوشربا ترقی کو تباہی سے دوچار کرنے کے لیے چین میں بھیجا گیا ہے۔اگر یہ بات سچ ہے تو کیا اسے بنانے والوں اور چین بھیجنے والوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ خود بھی اس کی حشر سامانیوں کی زد میں آسکتے ہیں۔یقینا اسے جنریٹ کرنے والوں نے پہلے اس کی ویکسین تیار کی ہوگی جسے وہ دنیا کو بھاری قیمت پر بیچ کر مزید دولت کمائیں گے لیکن دولت کمانا ان کا مقصد نہیں ہے۔ان کا مقصد دنیا پر حکمرانی ہے۔ وہ جنگوں کے روایتی حربے سے دنیا کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے سو ا ب غیر محسوس طریقے سے جراثیمی جنگ لڑی جا رہی ہے۔جس میں دشمن سامنے بھی نہیں ہے اور اس کے مقاصد بھی پورے ہو رہے ہیں۔جہاں تک اس وائرس کو جنریٹ کرنے کا تعلق ہے،سائنس فکشن پر مبنی سیکڑوں فلمیں دشمن پر جراثیمی حملوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔خصوصاً ہالی وڈ میں ان موضوعات پر بے شمار فلمیں موجود ہیں۔کرونا کے ذریعے چین پر حملہ اور دنیا بھرکے مخالفین کو جکڑنے کی کوشش ہمیں سائنس فکشن کی انہی فلموں کا کوئی ہولناک ٹریلر دکھائی دیتا ہے۔کرونا کے حوالے سے ایک نقطہ ئنظریہ سامنے آیا ہے کہ خدا کا اس سے وائرس سے کو ئی تعلق ہے، نہ ہی مذہب اس پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور سائنسدانوں کے بنائے ہوئے اس وائرس کا توڑ بھی صرف سائنس دانوں کے پاس ہی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظرگمراہ کن ہے اور صرف ان لوگوں کا ہے جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔نہ ہی وہ خدا کی حاکمیت اعلیٰ کے قائل ہیں۔اگر یہ بائیو وار ہے توشیطانی قوتوں کی فرمانروائی کی طرف ایک قدم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وبائی مرض دنیا میں پہلی مرتبہ نہیں پھوٹا بلکہ مختلف وبائی امراض دنیا میں ہر دور میں موجودرہے ہیں۔بہت پہلے طاعون کو وبائی مرض سمجھا جاتا تھا اور اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے لاکھوں میں ہوتے تھے۔اسی طرح آج کے دورمیں بھی ٹی بی،نزلہ زکام،ہیضہ اوربعض دوسری بیماریاں ایسی ہیں جنھیں چھوت کی بیماریاں کہا جا تا ہے اور وہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگتی ہیں۔لیکن بیماری چاہیے چھوت کی ہو یا کوئی دوسری،یہ کہنا کہ اس کا خدا سے تعلق نہیں ہے،کم عقلی کی بات ہے۔اسی طرح کرونا کی بنیاد پر سائنس کی حاکمیت اور بالادستی کو خدا کی بالادستی سے الگ خیال کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔قران حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ”انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے“اب اگر انسان نے ایٹم بم بنا کر اسے انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی خود انسان ہے۔اسی طرح اگر کرونا بھی انسان کا جنریٹ کردہ ہے تو اس سے ہونے والی تباہی اورا موات کا ذمہ دار بھی اس کو بنانے والا اور پھیلانے والاانسان ہوگا۔جہاں تک سائنس کا تعلق ہے۔اس کا تعلق انسانیت کے لیے نعمتوں اور سہولتوں سے ہے۔اس سے کام لے کر اپنے لیے آسانیاں پیدا کریں یا اسے انسانیت کے لیے زحمت بنائیں،اسے خدا نے انسان پر چھوڑا ہے۔بیماریوں میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی موجود ہوتی ہے۔بیماری سے انسان میں عاجزی پید اہوتی ہے،اوراسے اپنے خالق ومالک کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق ارزانی ہوتی ہے۔عصر حاضر میں لوگوں کو جو سب سے بڑا مرض لاحق ہے وہ دلوں کی بیماریاں ہیں۔دلوں کی ان بیماریوں میں غرور،حسد،نفرت،بغض،کینہ اور ان جیسے کئی اور امراض شامل ہیں۔کروناان امراض پر بڑی کامیابی سے حملہ آور ہوا ہے۔سو ہر آدمی خوف کا شکار ہوچکا ہے۔اس خوف نے اس کے اندر کو جھنجوڑا ہے اور دل کی سختی کو بھی بدلا ہے لیکن،انسان اس لیے خسارے میں رہتا ہے کہ بیماری ہویا پریشانی اورکوئی غم،وہ وقتی طور پر تو نیک اور اچھا انسان بن جاتا ہے لیکن جب بیماری یا پریشانی جاتی رہتی ہے تو وہ اپنے اوقات میں واپس آجاتا ہے۔ہمیں امید ہے کرونا بھی جلد پرجلد برڈ فلو کی طرح قصہ پارینہ بن جائے گا لیکن اس عرصے میں ہم اپنے اوقات پر واپس آجائیں گے۔لیکن خدا نخواستہ اگر انسان اسے روکنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ تو سوچئیے دنیا کیسی ہوجائے گی۔کسی سے کوئی ہاتھ نہ ملائے گا۔لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ کر کے بات کریں گے۔اونچی آواز میں بولنے کا کوئی برا نہیں منائے گا۔لاکھوں کروڑوں لوگ مرجائیں۔ مرنے والوں کے عزیز و اقارب ان کی میتوں کو غسل دینا تو کجا ان کے قریب جانے پر تیار نہیں ہونگے۔ دنیا میں لاشیں دفنانے سے زیادہ جلائی جانے لگیں گی۔کرونا سے محفوظ بستیوں میں داخلہ کے لیے باقاعدہ کرونا کا ٹیسٹ کراناپڑا کرے گا۔رسم رواج بدل جائیں گے۔ خاص طور پر شادی بیاہ کے، جلسے جلوس نکالنے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گی۔ہزاروں کاروبار تباہ ہو جائیں گے۔ دنیا کی معیشت سکڑ کر رہ جائے گی۔اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔مجھے یقین ہے کہ انسان بہت جلد اس بیماری سے نجات حاصل کر لے گااوربیماری کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کا خوف بھی مرجائے گا۔آخر میں پروفیسر ہاشم علی خان ہمدم کا ایک شعر حسب حال ہے
کوئی ہاتھ تک نہ ملائے گا جو ملو گے ماسک اتار کے
یہ کرونا زاد،کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی