کالم

داستاں گوئی اور سعید اشعر کی’’ نظم کہانی ‘‘ : یونس خیال

سعید اشعرؔکہانیاں لکھتے ہیں یا نظمیں ۔ ’’ نظم کہانی ‘‘ کا مسودہ دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ میرے پاس اس مشکل سے گزرجانے کےدو عملی طریقے تھے۔ ایک یہ کہ میں لفظیات کے گورکھ دھندے،علامتوں کی پُراسراریت ،جدیدیت اور روایت پسندی کے موازنے، مابعد جدیدیت اور اس طرزکی دیگر ثقیل تنقیدی اصطلاحوں کا جال بُن کراس مرحلے سے گزرجاتا ۔۔۔ یا پھر ان نظموں میں رہ کر، کچھ وقت گزارتا ۔۔۔ ان کوچھوتا، دیکھتا ، ان سے باتیں کرتا اور اگر مجھےیہ گفتگوئیں مزہ دیتیں تو میں آپ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کراور مزے لےلے یہ سب کچھ بتاتا۔ ان نظموں میں اس طرح گھومنے پھرنے سے یہ اندازہ لگانا بھی آسان ہوجاتا کہ ان میں’’ نظمیت‘‘ زیادہ ہے یا کہ ’’کہانی پن‘‘۔
اس دوسرےاور مشکل طریق پرہماری تنقید کی بنیادہونی تو چاہیے لیکن ہم سب نے اس سے جان چھڑالی ہے کیونکہ لفظوں میں اترنے اور ان کی گرھیں کھول کران میں جھانکنےکے لیے حوصلے کے ساتھ ساتھ ان کامزاج شناس ہونابھی ضروری ہوتا ہے جس کے لیے نہ ہمارے پاس وقت ہے اور نہ اہلیت ۔اور میں تو ویسے بھی اس حوالے سے منیرؔنیازی کاپیرکار:
حرف اک دوجے حرف دا پردہ میتھوں قیاس نہ ہویا
ساری حیاتی حرف لکھے پر حرف شناس نہ ہویا
ان نظموں میں سے ان کے تخلیقار سعید اشعر کا’’ کھوج ‘‘ لگا یاجاسکتاہے ۔نظموں کے عنوانات کو اگر ترتیب دے دیا جائے تو ان سے شاعرکی اصل تک رسائی ممکن ہوپاتی ہے ۔مثلا ’’ پہلا سفر‘‘ اس کی شعوری زندگی یا تخیلقی سفرکی ابتداء تک رسائی کاسبب بن سکتا ہے ۔

 

ساری رات
حقہ پیتے گزری
خالی پیٹ
حقہ پینا
شاید ہم دونوں کی مجبوری تھی
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
اک خیمہ ہے
خیمے کے اندر
ایک مسافر بیٹھا ہوگا
شہزادی کو
اس کی آنکھوں کا تحفہ دینا ہے‘‘
’’ پہلا سفر‘‘
یہ ایک ہی نظم اس کی زندگی کی پوری داستا ن سامنے رکھ دیتی ہے۔ چھوٹی بڑی مسافتوں کی یہ کہانی قاری کے سوچ کینوس پرہلکے گہرے رنگوں کے برشوں سے آڑے ترچھے انداز میں شاعرکاپوراعکس چھاپ دیتی ہے۔
رات کو مل بیٹھ کر’’حقہ ‘‘ پینا،سماجی موضوعات پرباتیں کرنا،کہانیاں اور داستانیں سنناسنانا ویسے بھی ہمارے ہاں ماضی قریب میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہواکرتا تھا۔اس حقے کے گرد دوخالی پیٹ اشخاص کے بیٹھنے کی مجبوری اور پھر۔۔۔ شہزادی کوآنکھوں کا تحفہ دینا ۔۔۔’’ افلاس‘‘ اور ’’محبت ‘‘ کی ایسی علامتی کہانی ہے کہ سعید اشعرنے اگر صرف یہ ایک نظم بھی کہی ہوتی تو اس پیمانے سے اس کی پوری زندگی کا سفر ناپا جا سکتاتھا۔کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے شاعرکی ساری زندگی بھوک کے خلاف اورمحبت تک رسائی کی جدوجہد میں گزری۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مسافت میں وہ خود کہاں کھڑا ہے ۔ وہ حقے کے گردبیٹھا داستان گو ہے یا داستان کاہیرو ۔
’’آو عشق کریں ‘‘ ، ’’میرے ساتھ چلوگی‘‘ ، ’’ تیرارقص دکھائی دے گا ‘‘ اور’’ اوس میں بھیگے خواب ‘‘میں سے اگرشاعر کوتلاش کیاجائے تو ایسادکھائی دیتا ہے کہ وہ داستان گو نہیں بلکہ نظم کہانی کااصل ہیروہے۔
۱۔
نیند سے نوجھل اس کی نظمیں
میرے ہونٹوں سے ہونٹ ملاکر وہ بولی
’’ کس کی خاطرنظمیں کہتے ہو‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔
’’آو عشق کریں‘‘
۲۔
ہم دونوں صحراکی وسعت میں
اک دوجے سے
بچھڑ گئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔
’’ تیرارقص دکھائی دے گا ‘‘
۳۔
کیلے کے پتوں پر
کھانارکھ کے
اب بھی کھایاجاسکتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔
’’میرے ساتھ چلوگی‘‘
لیکن پیچیدگی یہ ہے کہ یہاں بھی ہمارے لیے ہیروکو داستان گو سے کامل الگ کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔اور کہنا پرتا ہے کہ وہ دیومالائی کرداروں کی مانند داستان کا ہیرواور داستان گو خود ہی ہے۔اور ہاں یہاں ایک اور نیا سوال جنم لیتا ہے کہ’’ پہلا سفر ‘‘میں حقے کے گرد بیٹھے دو کردار کون ہیں ۔ یہی پیچدگی ہمارے شاعر کی مہارت ہے جو اس کے لیے الگ پہچان اور انفرادیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ نظموں کا مکالماتی انداز بذاتِ خود میری اس بات کی دلیل ہے ۔
’’میرے اندرتم کو
سب سے اچھاکیالگتاہے‘‘
بولی’’ کچھ بھی نہیں‘‘
’’پھرتم ساری کی ساری کیسےمیری ہو‘‘
’’اینویں ای‘‘
اب اس کامطلب کس سے پوچھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔

پھربولی
’’تم کافی سارے میرے ہو‘‘
پھربولی
’’میں ساری کی ساری تمھاری ہوں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔
’’اوس میں بھیگے خواب ‘‘
مکالمے کے اس انداز میں بھی کہیں کہیں یہی احساس جنم لیتاہے کہ وہ ایک گہرا ( مگرزمانہ شناس) فقیر ہے جو اپنے اندر ہی ایک دھونی رمائے بیٹھاہے اوریہ سارے سوال وجواب اس کے اپنی ذات ہی سے متعلق ہیں ۔ گویااس نے شعوری یا لاشعوری طورپر خودکلامی کی یہ طرز ایجاد کررکھی ہے ۔کیوں کہ وہ ایک فطری شاعر ہے اس لیے یہ چھوٹی بڑی گفتگوئیں جواس کے اپنے اندر سے جنم لیتی ہیں، خود بخود نظموں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔اورپھران سب نظموں سے مل کر اس کی زندگی کی کتھا تکمیل پاتی ہے۔
ﺑﺎﻟﮑﻨﯽ ﻣﯿﮟ
ﮨﻢ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ رﮐﮭﯽ ﭼﺎﺋﮯ
ﺑﮭﺎپ اڑاﺗﯽ
ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﻮس رﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ڈﮬﻠﻮان ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﺟﻨﮕﻞ
ﻗﻄﺮہ ﻗﻄﺮہ ﺑﺎرش ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﯿﮓ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ
وہ ﺑﻮﻟﯽ
” ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﻮں”
اس ﮐﯽ ﺷﺎل ﺳﮯ ﺑﮩﺘﮯ رﻧﮓ
قوسِ قزح کا
اﻣﮑﺎن ﺑﻨﮯ
ﻣﯿﺮی آﻧﮑﮭﯿﮟ
ﭘﺎﻧﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﻧﺪﯾﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮد ﮐﻮ ڈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻧﮑﻠﯿﮟ آﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﮨﻢ دوﻧﻮں ﮐﮯ ﭼﮩﺮے
ﻣﻠﺘﮯ ﺟﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ
(……….. ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﭩﯽ ﻧﻈﻢ )
سعید اشعر کی یہ نظم میرے اس گمان کی دلیل ہے ۔ جس میں وہ ’’ ہم دونوں کے چہرے ؍ ملتے جُلتے تھے ‘‘ پر آکر نظم کا اختتام کرتاہے۔اور پھریہ ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ کون ہے جس کے لیے اس نے نظموں کے انبار لگادیے۔اس مجموعہ میں ’’ ۔۔۔۔۔ ‘‘ کے لیے اس کی تئیس نظمیں موجود ہیں ۔اگر وہ اس سے اتناہی ٹوٹ کر عشق کرتا ہے توپھر اس کا نام لینے سے کیوں گریزاں ہے ۔یقینا وہ اپنی ذات میں چھپے محبوب کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔وہ ’’ سوال ‘‘ بھی خودہے اور اس کا ’’ جواب ‘‘ بھی خود ہی ۔ایک ایساکھوجی جو اپنی ہی تلاش میں اپنے قدموں کے نشانوں کے پیچھاکیے جارہا ہے ۔
سعید اشعر نظموں میں چھن چھن چھن ۔۔ دھم۔ دھم ۔۔ چھن چھن چھن کا سا ردھم اورآہنگ فطری طور پر موجود ہے۔لفظیات اور پیٹرن کے علاوہ فکری اور جذباتی سطح پربھی یہ ردھم اس کے ہاں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔نظم کی شروعات پروہ چونکادینے کی کیفیت پیداکرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ماحول سے الگ ہوجاتاہے اور ’’ دھم ۔دھم‘‘ کی آہٹ میں گم ہوکرقاری کے مزاج کاجائزہ لیتاہے۔اور جونہی اس کاقاری اسے تلاشنے کا دوبارہ سوچتاہے وہ پھر’’ چھن چھن چھن‘‘ کرتااپنی کہانی کا کلائمکس لیے اس کے سامنے آبیٹھتاہے ۔ میں نے اس کی کئی نظموں میں یہ کیفیت دیکھی اور محسوس کی ہے۔ اتفاق سے سعیداشعرسے میری بالمشافہ ملاقات ابھی تک نہیں ہوپائی لیکن میرااندازہ ہے کہ وہ اپنی زندی کے معاملات میں ابھرنے ، ڈوبنے اور پھرابھرنے کی کیفیات سے کئی بار گزرتا رہاہوگا۔
ماحول سے وقتی لاتعلقی اوراس طرح اپنی ذات کے سمندر میں ’’ڈوبنے‘‘کےلمحات میں اصل سعید اشعر موجود ہے۔اب اسے کون دریافت کرے ۔۔۔ یہ بہت مشکل کاہے۔یہ آپ جانیں یا تصوف والے ۔ میں توبس یہ جانتاہوں کہ جب وہ دوبارہ ’’ابھرتا ‘‘ہے تو اس کی نظم کہانی کی ایک مکمل تصویر ہمارے سامنے نمایاں ہوجاتی ہے ۔اوراس کے ہاں پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے قاری کو اپنی پسند کے رنگوں سے بنائی گئی زندگی کی چھوٹی بڑی کہانیوں کےتصویری روپ سے مسحور کیے رکھے۔
مجھے امید ہے کہ سعید اشعرکی ’’ نظم کہانی ‘‘ اس کے دوسرے مجموعہ جات کی طرح علمی اور ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل کرے گی اور جدیدنظم میں ایک خوب صورت اضافہ شمارہوگی۔
(دیباچہ : نظم کہانی)

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. younus khayyal

    اگست 9, 2020

    ’’ خیالنامہ ‘‘ کی طرف سے ’’ نظم کہانی‘‘ کی اشاعت پرخوب صورت شاعرسعید اشعرکومبارک باد
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ سعید اشعر نظموں میں چھن چھن چھن ۔۔ دھم۔ دھم ۔۔ چھن چھن چھن کا سا ردھم اورآہنگ فطری طور پر موجود ہے۔لفظیات اور پیٹرن کے علاوہ فکری اور جذباتی سطح پربھی یہ ردھم اس کے ہاں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔نظم کی شروعات پروہ چونکادینے کی کیفیت پیداکرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ماحول سے الگ ہوجاتاہے اور ’’ دھم ۔دھم‘‘ کی آہٹ میں گم ہوکرقاری کے مزاج کاجائزہ لیتاہے۔اور جونہی اس کاقاری اسے تلاشنے کا دوبارہ سوچتاہے وہ پھر’’ چھن چھن چھن‘‘ کرتااپنی کہانی کا کلائمکس لیے اس کے سامنے آبیٹھتاہے ۔ میں نے اس کی کئی نظموں میں یہ کیفیت دیکھی اور محسوس کی ہے۔ اتفاق سے سعیداشعرسے میری بالمشافہ ملاقات ابھی تک نہیں ہوپائی لیکن میرااندازہ ہے کہ وہ اپنی زندی کے معاملات میں ابھرنے ، ڈوبنے اور پھرابھرنے کی کیفیات سے کئی بار گزرتا رہاہوگا۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  2. یوسف خالد

    اگست 9, 2020

    ماشا اللہ جناب خیال صاحب آپ نے بڑی گہرائی سے ان نظموں کی اصل تک رسائی حاصل کی ہے – اور نظم کہانی کے شاعر کو بطور تخلیق کار بھی دریافت کیا ہے اور بطور معاشرہ کے فرد کے بھی – شاعری کو سمجھنے کے لیے آپ کا انداز جدا گانہ اور اہم ہے – یہ وہی انداز ہے جس کا ذکر ڈاکٹر وزیر آغا بڑی شدت سے کرتے تھے اور فن پارے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے عقبی دیار تک رسائی حاصل کرنے کو ضروری خیال کرتے تھے -آپ کے اس تجزیہ سے سرگودھا کے علمی و ادبی مباحث کی یادیں بھی تازہ ہو گئیں – سلامت رہیں
    سعید اشعر کو بہت بہت مبارک

  3. اقبال طارق

    اگست 9, 2020

    ماشاء الله
    عمدہ شخص کی عمدہ شاعری پر بہت عمدہ باتیں ۔
    نیک خواہشات

  4. راشدمحمود

    اگست 9, 2020

    آپ نےشاعرکےتخلیقی جوہرکوسمجھنےکےلئےنہایت اہم نکات کوبالکل فطری اندازمیں چھیڑااورمتوقع قاری کوکتاب میں شامل نظموں کی مزاج آشنائی میں مددکی۔بہت ہی دلچسپ دیباچہ ہے۔اس کتاب سےتومیراقاری کےعلاوہ ایک اورتعلق بھی ہےاوروہ یہ کےمیں نےبھی اپنےشعری سفرکاآغازاسی شہرسےکیاجہاں جناب اشعرکئی دہائیوں سےایک منفردشاعرکی حیثیت سےپہنچانےاورمانےجاتےہیں۔وہ ہمارےبہت محترم اورقابل فخرسینئرشاعرہیں۔یقیناً ان کےپہلےمجموعوں کی طرح یہ مجموعہ بھی بہت اہم ہے۔مجھےاُن کےاس نئےمجموعےکی بہت خوشی ہوئی ۔کتاب کی اشاعت پرسعیداشعرصاحب اوراپنےہزارےکےتمام احباب کودلی مبارکباد۔

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی