آج صبح سے حضرت علامہ کا یہ مصرعہ میرے دل و دماغ میں گونج رہا ہے۔اقبال نے تو عقل و خرد کی ایک خامی گنوائی تھی ,مگر میرے دماغ میں اپنی ان تمام خامیوں اور کمزوریوں کا خیال آرہا ہے،جن کے سبب کرونا ہر طرف سے بڑھ چڑھ کے حملے کر رہا ہے اور پوری دنیا سہمی ہوئی ہے۔جو لوگ احتیاطی تدابیر کر رہے ہیں یہ انہیں بھی نہیں بخش رہا اور کوئی نہ کوئی کمزور لمحہ دیکھ کر ان پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔بہت سے ڈاکٹرز اور طب کے ماہرین اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ کرونا ہر آدمی کو ہو گا یا اس تک پہنچے گا۔ایک تحقیق یہ آئی ہے کہ نوجوان اس سےکم متاثر ہوں گےجبکہ بوڑھوں میں یہ شرح بہت زیادہ ہو گی۔ابھی اس کے مکمل ختم ہونے کے چانسز بھی نہیں ہیں۔اس پس منظر میں ایک ہی رستہ رہ جاتا ہےکہ سماجی فاصلے کو ممکن بنایاجائے۔ ہر آدمی جو پہلے ہی اپنے تمام معمولات کی بہت حد تک تحدید کر چکا ہے،اور کتنا محدود ہوگا۔ہم بہت سے ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو سماجی فاصلے کو قائم رکھ کر تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لا چکے تھے ،مگر انہیں بھی کرونا انفیکشن ہو گیا ہےاور وہ بھی خود اختیارکردہ تنہائی کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔اس منظر میں ہم سب ایک مشکل میں پھنس چکے ہیں،جس میں سے نکلنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔کرونا کے متعلق بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔یہ لیب جنریٹڈ ہے یا نہیں ہے بہرحال یہ بات طے ہو چکی ہے کہ اللہ کے عذابوں میں سے ایک عذاب ضرور ہے۔یہ اللہ کی ناراضی کا ہلکا سااظہار ہے۔ہلکا سا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کئی ماہ ہو چکے ہیں اور اس سے ابھی تک چند لاکھ لوگ ہی متاثر ہوئے ہیں۔ان میں سے بہت سے تندرست بھی ہو چکے ہیں ورنہ پرانی قوموں پر جب اللہ کا عذاب آتا تھا تو بستیوں کی بستیاں الٹ دی جاتی تھیں۔طوفان نوح میں زمین سے بھی پانی جاری تھا اور آسمان بھی برابر برسے جارہا تھا۔اسی طرح عاد سمود کی قوموں کا کیا حال ہوا۔سورہ الحج آیت 45/46 میں ارشاد ہوتا ہے۔٫٫
پس کتنی ہی (ایسی) بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے دل اِن باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں( یعنی یہ لوگ اپنی آنکھوں سے تاریخ پر نظر دوڑا کر عبرت حاصل نہیں کرتےکیا انجام ہوا ہم سے غافل ہونے کے سبب) بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں( مردہ حالت میں جنہیں کوئی سوجھ بوجھ نہیں)
دراصل اللہ کی ناراضی کی وجہ بھی یہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے آج کی دنیا پر اپنا بےانتہا فضل وکرم کر رکھا ہے۔دولت کی فراوانی ہے۔کھانے پینے کو طرح طرح کی اشیا میسر ہیں،سفر کرنے کو آرام دہ گاڑیاں اور آواز کی رفتار سے بھی تیز ہوائی جہاز موجود ہیں۔دنیا بھر کی خبریں،اور حالات وواقعات چند سیکنڈز میں ٹی وی چینلز کے ذریعے دنیا بھر کو معلوم ہو جاتے ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون نے اپنوں سے رابطے اور فاصلے چند سیکنڈز اور ایک کلک کے لمحے تک سمیٹ دیے ہیں۔گویا دنیا کو آج جتنی آسانیاں اور سہولتیں میسر ہیں،اتنی پہلے کبھی نہ تھیں۔لیکن اللہ کی اس قدر نعمتوں کے باوجود اس کی نافرمانی دنیا میں بہت بڑھ چکی ہے۔اس نافرمانی میں صرف اہل ہنود و یہود اور نصرانی ودیگر غیر مسلم ہی شامل نہیں ہیں مسلمان بھی شامل ہیں اور غیر مسلموں سے کسی طورکم نہیں ہیں۔سارا مسلم معاشرہ فرقوں اور نفرتوں میں تقسیم ہو چکاہے۔سود جسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کہا گیا ہے،ہر بنک میں اور ہر جگہ پر موجود ہے اور اس کے بغیر کہیں لین دین نہیں ہوسکتا۔بے راہ روی اور فحاشی اپنے عروج پر ہے۔موبائل فون اور انٹرنیٹ ہر آدمی اور ہر نوجوان کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔اس پر اپ لوڈ ہونے والی بے شمار غیر اخلاقی ویڈیوز تک رسائی میں کوئی رکاوٹ اور قدغن نہیں ہے۔معاشرے میں قتل وغارت گری اور سماجی استحصال کی خوف ناک صورتیں موجود ہیں۔اس صورتحال میں کرونا کا پھیلنا اللہ کی ناراضی نہیں تو اور کیا ہے۔اللہ جب کسی قوم پر اپنا بہت فضل وکرم کرتا ہے ،تو پھر ضرور اسے کسی امتحان سے بھی گزارا جاتا ہے۔اسی طرح اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام بھیجے تو سب کو ایک نظام دے کر بھیجا۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک مکمل نظام لے کر آئے۔آج ساری دنیا کے انسان چاہیے وہ کسی بھی مذہب وملت کے فردہوں دراصل اسی خدائی نظام کے پابند ہیں جو اللہ کا منتخب کردہ اور بھیجا ہوا ہے اوراس میں کبھی رد وبدل نہیں ہوتا۔قران حکیم کی سورہ الاحزاب میں میں ارشاد ہوتا ہے۔
٫٫ اللہ کی( یہی) سنت( اللہ کریم کی عادت ، اللہ کا قانون، اللہ کا اصول و ضابطہ اور طور طریقہ رہا) ان لوگوں میں جو تم سے پہلے گزر چکے( اور یہی تمہارے لیے ہے) ،تم اللہ کے قانون و ضابطے میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پاؤ گے۔(الاحزاب 62)
۔اسلام کے آخری دین ہونے،پہلی تمام شریعتیں منسوخ ہونے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے دین اسلام کو قبول کرنے کے حکم کے پیچھے بھی یہی نقطہ کارفرما ہے کہ وہ ایک ایسا نظام قبول کر لیں جو ساری انسانیت کی فلاح کے لیے آیا ہے اور اگلی دنیا کی کامیابی وکامرانی کا ضامن بھی ہے۔لیکن انسان کی ساری کوششیں اسی نظام کو تہہ و بالا کرنے کی ہیں۔مغرب نے جنسی آزادی کی صورت میں جس نظام کو رواج اور فروغ دیا ہے وہ خدا کے قائم کردہ نظام کو کتنے عرصے سے پامال کر رہا تھا،اللہ نے پہلے ایڈز کی صورت میں وارننگ جاری کی لیکن اس کو سرمایہ دارانہ نظام کے ہوس کاروں نے قابل اعتنا نہیں سمجھا تو اب کرونا کی صورت میں ایک اور عذاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کرونا معاشرے کے تمام طبقات اور شعبوں پر اثرانداز ہوا ہے اور دنیا بھر کی معیشت کی طرح جنسیت سے متعلقہ انڈسٹری بھی تباہ وبرباد ہو چکی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کرونا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک وارننگ ہے جو ایڈز سے زیادہ سخت ہے اور اگر دنیا نے پہلے کی طرح شعور کی آنکھیں بند رکھیں اور حالات بہتر ہوتے ہی پرانی روش اور ڈگر پر چل پڑی تو پھر تمام انسانیت کو عذاب الٰہی کی اس سے بھی سخت صورت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔قیامت اور یوم حساب کے قائم ہونے کے آثار بھی پورے ہوتے نظر آرہے ہیں سو انسانیت کو آج اپنی حالت پر غور کر کے عبرت پکڑنی ہو گی۔۔۔۔