کالم

بائی پاس : اقتدار جاوید

عمر مبین نے تو کچھ نہیں کہا، اس نے بائی پاس آپریشن کے بعد ایک خطیر رقم کی ادائیگی کی اور آپریشن کے چند دن بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہو گیا، یہ تو میں کہہ رہا ہوں۔ اِسی شہر کی ایک بستی میں وہ ہسپتال ہے اور اس میں بھی ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں کہ وہ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے۔ اس کا سارا انتظام ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنی فیلڈ اور کام کے ماہر ہیں، ان کا اندازِ گفتگو، ان کا ڈیل کرنے کا انداز اتنا پروفیشنل ہے کہ گمان ہوتا ہے یہ پاکستان نہیں شمالی یورپ کا کوئی ملک ہے‘ جہاں صحت اور تعلیم اول و آخر ترجیح ہیں۔ ہسپتال میں صفائی کا انتظام اس قدر اعلیٰ کہ کہیں بھی‘ داخلی دروازے سے لے کر عقبی گزرگاہ تک‘ گرد کیا کہیں کوئی کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا۔ کہیں کوئی شور نہیں، کوئی آواز نہیں، پن ڈراپ خاموشی ہے۔ راہداریاں ہیں کہ شفاف آئینے‘ انتظار گاہیں ہیں کشادہ اور بیٹھنے کا انتظام ایسا کہ اعلیٰ طرز کی آرام دہ کرسیاں جن پر گھنٹوں بیٹھ کر تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہاں کے ملازمین انتہائی مہذب، بات کرتے ہیں تو دل موہ لیتے ہیں۔ بجلی کی چوبیس گھنٹے کی یقینی فراہمی‘ نہ بجلی کے جانے کا ڈر نہ اچانک کسی سپلائی لائن کی خرابی کا خوف۔ ایک نادیدہ قوت ہے جو اس سارے انتظام کی نگرانی کر رہی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کوئی نادیدہ قوت نہیں ایک نظام اور سسٹم کی طاقت ہے جو یہ سب کچھ ایک خوش سلیقگی سے چلا رہا ہے۔ جس میں ہر ایک کا کام اور فرض متعین ہے، کوئی کسی کے کام میں نہ مداخلت کرتا ہے نہ مداخلت کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ہر کوئی اپنے فرض کو بخوبی سمجھنے والا بھی ہے اور ادا کرنے والا بھی۔ ڈاکٹرز ہیں کہ فرض شناس سپاہی‘ جو کسی صورت میں اپنے مورچے کو نہیں چھوڑتے۔ وقت کے پابند ‘نہ ایک ثانیہ پہلے نہ ایک ثانیہ بعد۔
ہمیں کہا گیا تھا کہ مبین عمر کو سات بجے شام آپریشن کے ضروری مراحل اور دوسری احتیاطی تدابیر کے بعد عین نو بجے آپریشن تھیٹر لے جایا جائے گا اور مقررہ وقت پر آپریشن شروع ہو جائے گا‘ جو پانچ گھنٹوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ہم تمام افراد‘ میں، بیگم، مبین کی بیگم، اس کی معصوم مگر خاموش بیٹی صحابیہ‘ اس کے دو بیٹے‘ اس کی بہنیں‘سبھی اس کمرے کے باہر موجود تھے مگر نہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر کب آئے گا اور کب آپریشن شروع ہو گا۔ تھوڑی سی ہِل جُل ہم نے محسوس کی اور عملے کے ایک رکن کو جلدی سے آتے جاتے دیکھا تو پتا چلا آپریشن تو پورے نو بجے شروع ہو گیا تھا۔پوسٹ آپریشن میں احتیاط کا یہ عالم کہ اس کے کمرے میں چار ڈاکٹرز اور دو پیرا میڈیک سٹاف ہمہ وقت موجود تھے۔ کوئی ایسا لمحہ نہیں جب مریض کو اکیلا چھوڑدیا گیا ہو، اس کی خوراک‘ دوا کا چارٹ تھا کہ کوئی آئین کی دستاویز جس کو ہمہ وقت سامنے رکھا ہوا ہو۔
کیا آپ کو کبھی سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا ہے؟ ضرور ہوا ہو گا اور ان ہسپتالوں کے انتظام کو دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا ہو گا۔ یقینا وہاں بھی بہت سارے ایسے فرض شناس اور ذمہ دار ڈاکٹرز ہوں گے جن کی زندگی کا مشن مریض کی صحت یابی ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر وہاں بد انتظامی کی کوئی حد نہیں۔ہسپتال کے ایم ایس کے کمرے کے سامنے وہ جم ِ غفیر ہوتا ہے کہ وہاں آدمی ایک لمحے کے لیے کھڑا نہیں ہو سکتا، جس آدمی کے پاس کسی کی چٹ یا پرچی نہ ہو‘ اس کا اس کمرے میں داخل ہو سکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سو وہاں جانے سے پہلے ہر کوئی مناسب بندوبست کر کے جاتا ہے یا تو وہاں آپ کی واقفیت ہو یا آپ کے ساتھ کوئی یہاں کام کرنے والا ہو تو ایم ایس کے آفس کا دروازہ سم سم کے ورد سے کھل جاتا ہے‘ ورنہ وہ بد نصیب مریضوں کے بخت کی طرح مقفل ہی رہتا ہے۔ اس کمرے میں ہزار حیلوں کے بعد جب اندر داخل ہو جاتے ہیں تو دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے چونکہ وہاں رش اس قدر ہوتا ہے کہ بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر آپ کو کوئی کرسی وغیرہ مل جائے تو دیکھیں گے کہ ایم ایس صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کا کمال اب یہ ہے کہ عین اس وقت آپ کے سفارشی کا بھی فون آ جائے، تبھی آپ کے آنے کا مقصد پوچھا جائے گا ورنہ آپ باری کا انتظار کرتے کرتے تھک جائیں گے۔ قسمت کی یاوری کہیے کہ آپ کا کام ہونے کی باری آ گئی تو ایسے جتایا جائے گا کہ ہسپتال والوں نے آپ پر کوئی ایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ آپ شاید ہی اتار سکتے ہوں۔
ہمارے ایک بہت اعلیٰ عہدے پر فائز افسر دوست کو اسی ضمن میں جو تجربہ ہوا‘ وہ اتنا چشم کشا ہے کہ اس کے بعد اس بارے میں کچھ کہنے سننے کی گنجاش ہی نہیں رہتی کہ شہریوں کی صحت کے ساتھ کیسا مذاق ہو رہا ہے۔ جب وہ ایک ہسپتال کے پروفیسر کے کمرے کے پاس پہنچے تو ایک اہلکار نے انہیں بتایا کہ پروفیسر صاحب موجود نہیں ہیں۔پروفیسر صاحب کے کمرے کے باہر تالا لگا تھا، حالانکہ وہ پروفیسر صاحب اسی کمرے میں موجود تھے۔ اعلیٰ افسر نے زبردستی دروازہ کھلوایا تو کمرے میں موجود لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور وہ پروفیسر صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ اب بھلا اس قسم کے سرکاری ہسپتالوں میں کوئی کیوں جائے گا؟ اور اگر آپ اس وارڈ میں جانا چاہتے ہیں جہاں آپ کا مریض ایڈمٹ ہے تو اس وارڈ میں داخل ہونا ایم ایس کے دفتر میں داخل ہونے سے بھی کہیں مشکل ہے کہ وہاں ایک لوہے کی گرل لگی ہوتی ہے‘ اس پر تالا بھی لگا ہوتا ہے مگر درمیان میں اتنا رستہ اور اتنی جگہ موجود ہوتی ہے جو اجازت ملنے کے بعد بھی ایک آدمی کے اندر جانے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ وہاں ایک ملازم کھڑا ہوتا ہے جو کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہوتا۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹرز کے رائونڈ کا وقت ہے۔ ان کے رائونڈ کے بعد ہی آپ اندر جا پائیں گے مگر جونہی اس کی مٹھی گرم کی جاتی ہے‘ تالا بھی کھل جاتا ہے اور راستہ بھی بنا دیا جاتا ہے۔ان سرکاری ہسپتالوں کے بد بو دار برآمدوں اور مختلف قسم کی دوائیوں کی مہکار سے بے ہوش ہونے سے بچ جائیں تو بھول کر بھی کسی واش روم کی طرف نہ جائیے گا۔ اگر آپ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہیں جس کا علاج آپریشن ہے تو اس کے لیے ہسپتالوں میں اُس لائن سے بھی لمبی لائن لگی ہوتی ہے جو ایم ایس کے دفتر کے سامنے لگی ہوتی ہے۔ یہاں آپ کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ ہاں! ایک شرط پر آ بھی سکتی ہے اگر آپ بھی مبین عمر کی طرح ساری جمع پونجی اپنے آپریشن پر لگا سکتے ہوں،ورنہ باری کا انتظار کرنا ہے‘ دو تین سال تو کہیں نہیں گئے۔ دل کے علاج کا جو پنجاب کا سب سے بڑا ہسپتال ہے‘ وہاں جا کر تاریخ لے کر دیکھ لیں، ایک ایسا مرض جس کا آپریشن چند دن ملتوی کرنا مریض کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہو‘ وہاں تین سال کون انتظار کرے گا؟ ممکن ہے آپ کو دو نمبر دوائیں دی جائیں، یہ کوئی مذاق نہیں‘ اسی دل کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک‘ دو نہیں‘ دو سو لوگ جعلی ادویات سے مارے گئے تھے۔
عمر مبین تو ایک بڑی رقم ادا کر کے اور صحتمند ہو گیا، اتنی بڑی رقم جس سے اس کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے تھے وہ تعلیم جو ان کے لیے نئی راہیں متعین کر سکتی تھی مگرہر کسی میں اتنی استطاعت کہاں کہ اپنے علاج پر بھاری رقوم خرچ کر سکے سو وہ مجبورِ محض ہے کہ علاج معالجہ کی انہی سہولتوں پر اکتفا کرے جو سرکاری طور پر میسر اور فراہم کی گئی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے کہ حکومت کی یہ ترجیح ہی نہیں کہ صحت کی ایسی سہولتیں مہیا ہوں جو حقیقتاً کسی کے دکھ کا مداوا کر سکیں۔ جہاں جعلی ادویات سے دو سو لوگ ہلاک ہوئے تھے‘ وہاں اگر بائی پاس ہو سکتا تو عمر مبین ان ہسپتالوں کو کیوں بائی پاس کرتا؟ اگر حکومت صحت اور علاج کی ایسی سہولت اسے میسر کرتی جو اسی شہر کی ایک بستی میں اُسے ملیں تو اسے کیا کسی کو بھی وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اربابِ بست و کشاد میں سے ہے کوئی جو اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جواب تلاش کرے یا یہ اندھیرے ہی عوام کا مقدر ہیں؟

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی