غزل

غزل : ڈاکٹرشاکر حسین

کچھ ہیں رشتے مگر ادھورے ہیں
اِن امیروں کے گھر ادھورے ہیں

تم میرے ساتھ جب نہیں ہوتے
خوشبوؤں کے سفر ادھورے ہیں

کس نے شاخوں کو نوچ ڈالا ہے
پھول، کلیاں، شجر ادھورے ہیں

خواب جن کو اذییتیں بخشیں
اُن کے شام و سحر ادھورے ہیں

زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں

مستقل نیند سے ہوں نا امید
کتنے خوابوں کے در ادھورے ہیں

اُس طرف ہو گیا ہے وہ تقسیم
ہم بھی شاکر اِدھر ادھورے ہیں

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. younus khayyal

    مارچ 2, 2021

    واااااااااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ غزل
    زندہ لاشیں ہیں چلتی پھرتی سی
    جسم بونے ہیں سر ادھورے ہیں

  2. مسز دستگیر نازش

    مارچ 2, 2021

    غزل کا اصل رنگ لئے حسن بیان کی عمدہ مثال ہر شعر ایک جامع تحریر بہت خوب

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں