غزل

غزل : مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

دردِ فرقت کی یہ تاثیر کہاں تک پہنچی
تم جہاں تھے مری آواز وہاں تک پہنچی

عشق کی آگ جو اک خاص تپاں تک پہنچی
کیوں نہ فریاد مری کوچہِ جاں تک پہنچی

وحشتِ دل جو لیے کوچہِ دلدار گئی
کہ بھلائی بھی مری میرے زیاں تک پہنچی

لاکھ اے دوست بہانے تو بنا اب کیا ہے
دل کی آواز تھی جو تیری زباں تک پہنچی

حسرتِ‎ دید لیے میں تری پھرتا ہوں یہاں
اب تو یادوں کی خلش چشمِ رواں تک پہنچی

پھر بھی آئے نہیں تم دیکھنے کون آیا ہے
دل کی حالت جو مری دردِ فغاں تک پہنچی

آپ کہتے تھے کہ دل جاں سے فقط تیرے ہیں
بات پھر کیسے یہاں آہ فغاں تک پہنچی

کس نے ارشدؔ انہیں انجان بنا رکھا ہے
فاصلے بڑھتے گئے بات کہاں تک پہنچی

مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں