غزل

غزل : محمودپاشا

گھر کی حالت سے نہیں لگتا کہ گھر بولتا ہے
لوگ کہتے  ہیں  یہاں کوئی  مگر بولتا ہے

ہو رہی ہیں کہیں شاہوں کی زبانیں لرزاں
اور کہیں نیزے پہ رکھا  ہوا  سر بولتا ہے

مجھ  پہ خاموشی کا  الزام  لگانے  والو
میں نہ بولوں تو مرا دستِ ہنر بولتا ہے

ان فصیلوں سے نہیں ہو گی حفاظت گھر کی
ان فصیلوں کی تو اینٹوں سے بھی ڈر بولتا ہے

اب  کے بستی میں مسیحا  نہیں آنے  والا
اک پرندہ ہے جو یاں شام و سحر بولتا ہے

مجھ کو محمود سکھایا ہے مرے پرکھوں نے
بات  میٹھی  ہو  تو  لہجے کا  اثر بولتا ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں