غزل

غزل : قیصر شیراز

میں نصیب بن کے ٹھہر رہوں،یا فقیر بن کے سوال ہو
میں صدا لگاتا ہوں جاں بہ لب تو بتا جو تیرا خیال ہو

مجھے شوق تھا سرِ شامِ غم دِیے اس طرح سے بجھا سکوں
ترے درد کو کروں معتبر مرے ورد سے لَو نڈھال ہو

مرا خواب تھا پسِ بوئے گُل میں ٹہل ٹہل کے چلا کروں
مجھے روک لے وہیں باغباں،جہاں نسترن کا جمال ہو

بھری بزم میں کوئی خیر خواہ،کوئی نامہ بر،کوئی دل جلا
مجھے تخلیے میں ہنر بتائے کے ربط کیسے بحال ہو

رہے موجزن جو فصیلِ لب، ہو نقیبِ جاں کبھی دم بہ دم
وہ اگر ابھی مرے روبرو ہو تو گفتگو بھی محال ہو

جو نہ آرزو بنی جستجو،دَرِ وجد حالتِ گُو مگو
کرے دل تماشہ وہ ہُو بہو مرے ذرے ذرے دھمال ہو

نہ ہی گلستاں کے تمام پھولوں پہ مل سکی کوئی دسترس
جو تھے ہاتھ میں ترے تج دیے سبھی؟ یارتم بھی کمال ہو

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں