غزل

غزل : غزالہ شاہین مغل

کم ملے تو عطا کو روتے ہیں
پھر گنوا کے انا کو روتے ہیں
موت آنی ہے آ کے رہنی ہے
کس لیے ہم قضا کو روتے ہیں
سر پہ رکھ کر گناہوں کی گھٹڑی
کون ہیں جو دعا کو روتے ہیں
چھین کر دوسروں کی سب خوشیاں
اب وہ اپنی خطا کو روتے ہیں
خود فریبی عجیب نشہ ہے
بے وفا بھی وفا کو روتے ہیں
خود ہی پھیلا کے غم زمانے میں
کم نظر اب خدا کو روتے ہیں
آ سہولت سے ہم بچھڑ کر پھر
اپنی اپنی جفا کو روتے ہیں
رکھ کے دیوار پر دئیے اپنے
لوگ ناحق ہوا کو روتے ہیں
عشق ھے وہ گلاس پانی کا
پینے والے سدا کو روتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں