دیپ جلتا یہاں پہ رکھا تھا
ساتھ رستہ یہاں پہ رکھا تھا
اس نے کپڑا یہاں پہ رکھا تھا
میں نے جھنڈا یہاں پہ رکھا تھا
میری آنکھیں بھی اس کے اندر تھیں
ایک بستہ یہاں پہ رکھا تھا
پیاس رستہ بدل کے آئی پھر
ایک دریا یہاں پہ رکھا تھا
کون سجدہ اٹھا کے لے گیا ہے
میں نے ماتھا یہاں پہ رکھا تھا
چند لفظوں میں تھوڑی گڑبڑ ہے
میں نے وعدہ یہاں پہ رکھا تھا
نام لے لے کے تیری مٹی کا
خشک پتا یہاں پہ رکھا تھا
آسماں کو الٹ دیا کس نے
میں نے سیدھا یہاں پہ رکھا تھا
جانے کس کس کی وہ نظر میں تھا
کھوٹا سکہ یہاں پہ رکھا تھا