غزل

غزل : غزالہ شاہین مغل

دیپ جلتا یہاں پہ رکھا تھا
ساتھ رستہ یہاں پہ رکھا تھا

اس نے کپڑا یہاں پہ رکھا تھا
میں نے جھنڈا یہاں پہ رکھا تھا

میری آنکھیں بھی اس کے اندر تھیں
ایک بستہ یہاں پہ رکھا تھا

پیاس رستہ بدل کے آئی پھر
ایک دریا یہاں پہ رکھا تھا

کون سجدہ اٹھا کے لے گیا ہے
میں نے ماتھا یہاں پہ رکھا تھا

چند لفظوں میں تھوڑی گڑبڑ ہے
میں نے وعدہ یہاں پہ رکھا تھا

نام لے لے کے تیری مٹی کا
خشک پتا یہاں پہ رکھا تھا

آسماں کو الٹ دیا کس نے
میں نے سیدھا یہاں پہ رکھا تھا

جانے کس کس کی وہ نظر میں تھا
کھوٹا سکہ یہاں پہ رکھا تھا

 

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں