بات مرہم ہے، بات نشتر ہے
آدمی چُپ رہے تو بہتر ہے
مجھ میں اُڑتے ہیں نیلگوں بادل
اُس کی آنکھوں میں اِک سمندر ہے
جل رہا ہے چراغ پانی میں
شام ہے اور عجیب منظر ہے
ایک کے بعد دوسری گلی تھی
ایک کے بعد دوسرا گھر ہے
اصل اور نقل اور یہ شکل کا کھیل
سب سے بڑھ کر تو تیرے اندر ہے
وصل کا باب بھولتا ہے مجھے
ہجر کا قاعدہ تو از بر ہے
تُو مجھے کیا سبق پڑھائے گا
بالِ جبریل میرے سر پر ہے
اپنے ہی ضابطوں میں جکڑا ہُوا
آدمی بھی عجیب دفتر ہے