سعید اشعرؔ
اک سمندر سا بنانا تھا ، بنایا نہ گیا
راز تجھ کو جو بتانا تھا ، بتایا نہ گیا
چندلمحات کی مہلت ہے مرے پاس ابھی
میں نے اک خواب جگانا تھا، جگایا نہ گیا
تیری جانب مجھے بڑھنے کے لیے جانِ جاں
خود کو رستے سے ہٹانا تھا ، ہٹایا نہ گیا
دھوپ چھَن چھَن کے گزرتی ہے بدن سے میرے
میں نے سورج کو منانا تھا ، منایا نہ گیا
زندگانی تری خاطر بھی بہت مشکل تھی
بوجھ اپنا بھی اٹھانا تھا ، اٹھایا نہ گیا
اس کی آنکھوں میں نظر آیا تھا اک دن جو مجھے
اس جزیرے کو سجانا تھا ، سجایا نہ گیا
ایک چہرہ مرے چہرے پہ الگ سے بھی ہے
آئنہ اس پہ لگانا تھا ، لگایا نہ گیا
اب جہاں شہر میں پھولوں کی دکاں ہے میری
اس جگہ پیڑ لگانا تھا ، لگایا نہ گیا
یہ زمیں میں نے گھمائی ہے کئی بار اشعرؔ
آسماں بھی تو گھمانا تھا ، گھمایا نہ گیا