غزل

غزل : زہرا شاہ

میں اس کا مسئلہ تھی جسے حل نہیں کیا
اس نے مجھے کبھی بھی مکمل نہیں کیا

مانا کہ تھل مزاج رتوں کی امین ہوں
روتی رہی ہوں آنکھ کو تو تھل نہیں کیا

اسکو بھلانا تھا سو بھلا بھی دیا اُسے
جو کام آج کا تھا اسے کل نہیں کیا

روئی تمہارے شہر سے میں دور بیٹھ کر
میں نے تمہارے شہر کو جنگل نہیں کیا

جو ہاتھ تیرے جانے پہ میں نے ہِلایا تھا
موسم کی شدتوں نے اسے شل نہیں کیا

اُسکو خدایا میں نے ولی ہی سمجھ لیا
جس نے تری زمین کو مقتل نہیں کیا

میں ظلم کے خلاف کبھی چپ نہیں رہی
اونٹوں کی خالی پشت کو محمل نہیں کیا

اُس کو سہولتوں کی سواری نہیں ملی
جس نے سفر حیات کا پیدل نہیں کیا

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں