غزل

غزل : راجر ودوان

جب تم نہیں تو تختِ سلیماں کا کیا کریں
ہم دولتِ دمشق و خراساں  کا کیا کریں

ہوں لاکھ مہربان بہاریں  گلاب پر
اندیشہءِ فراقِ بہاراں کا کیا کریں

توبہ کا در بھی بند ہے اور مے کدہ بھی بند
کوئی بتائے نفسِ پشیماں کا کیا کریں

تم بھی نہیں ہو سایہءِ دیوار بھی نہیں
ایسے میں زورِ گرمیِ دوراں کا کیا کریں

اب جب کہ شاعری کاشغف ہی نہی رہا

اب کچھ علاج ہم غمِ انساں کا کیا کریں

جو ہجرتوں کے عہد میں یکسر جمے رہے
وہ پیڑ بھی اکھڑتے ہیں طوفاں کا کیا کریں

جو دافعِ خیالِ غزالاں نہ ہو سکا..
ہم ایسے شوقِ وسعتِ زنداں کا کیا کریں

راجز ہم ان کے سامنے بیٹھے ہوئے بھی ہیں
اور سوچتے ہیں تلخیءِ ہجراں کا کیا کریں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں