غزل

غزل : آصف ابر

دل دریچوں میں وہی لوگ بسا کرتے ہیں
جن کی وحشت سے زمانے بھی ڈرا کرتے ہیں

جس گلی میں وہ صنم میرے رہا کرتے ہیں
اس گلی میں سبھی عزت سے جیا کرتے ہیں

تیرے اس شہر کے معلوم نہ تھے طور ہمیں
غرض ہو جس کو وہ قدموں میں گرا کرتے ہیں

شہر ِ تنہائیوں کی بستی کے باسی اکثر
آئنہ دیکھ خودی سے کیوں لڑا کرتے ہیں

حسنِ یوسف کی کلی چھپ جا زمانے سے تو
پتھروں کو بھی یہاں لوگ خدا کرتے ہیں

جن کی منزل ہو نگاہوں میں ہو چہرے پہ خوشی
قافلے میں وہ ذرا آگے چلا کرتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں