فرحت عباس شاہ
تم جب ہم کو اتنا سستہ بھول گئے
ہم بھی تمہیں پھر جستہ جستہ بھول گئے
کتنی اچھی چائے تھی تیرے ہاتھوں کی
کتنا تھا وہ بسکٹ خستہ بھول گئے
جب تو کزن کی باتیں سنا کر ہنستی تھی
میں بھی مجبورا” تھا ہنستا ، بھول گئے ؟
ایسی برسی آنکھ ہماری ساون میں
بستی والے ابر برستا بھول گئے
مہک رہا ہے کمرہ خوشبو سے جیسے
آپ ہمارے گھر گلدستہ بھول گئے
بچپن میں وہ ساتھ ہمارے پڑھتی تھی
اس کو یاد رکھا اور بستہ بھول گئے
کونسی شاخ سے ٹوٹ گرے تھے یاد نہیں
کونسے پیڑ سے تھے پیوستہ بھول گئے
کل شب راہ میں اک آوارہ جھونکے نے
آنکھ چبھو دی اور ہم رستہ بھول گئے
اک لڑکی تھی اور اک لڑکا تھا فرحتؔ
ہوکر آپس میں وابستہ بھول گئے