ترا جو نام ہے، خوشبو، اسی کی اب بسی کہیے
مرے آنگن، مرے گلشن میں ورنہ تو کمی کہیے
کسی پر تو اثر ہوگا ، کوئی تو بات مانے گا
زمیں کو گر فلک اور تیرگی کو روشنی کہیے
سر صحرا جو اڑتا ہے، تہہ دریا جو بہتا ہے
کبھی اس کو کبھی اس کو ہماری زندگی کہیے
چراغوں میں نہ چندا میں، کنارے پر نہ دریا میں
مرے لفظوں میں زندہ ہے، اسے ہی دوستی کہیے
تری باتیں صحیفے ہیں جو اترے آسمانوں سے
مری ہر بات کو لیکن مسلسل دل لگی کہیے