غزل

غزل : غزالہ شاہین مغل

جو غم ہمارا ہے وہ غم تمہارا ہے کہ نہیں
بتا دو ہم کو خدارا خدارا ہے کہ نہیں

قفس کی قید کا قیدی بتائے گا کیسے ؟
بساط. عشق کا کوئی کنارا ہے کہ نہیں

سمندروں کے سفر پر ہو کتنی مدت سے
ادھر پلٹ کے بھی دیکھو کنارا ہے کہ نہیں

گلاب کہتے ہیں جس کو وہ زندگانی میں
محبتوں کا حسیں استعارہ ہے کہ نہیں

ذرا سا ضبط کے بادل کو تم برسنے دو
سمجھ میں آئے گا تم کو خسارا ہے کہ نہیں

پلٹ کے آئے گا میرا یقین تها یہ مگر
میں سوچتی ہوں کہ اس کو پکارا ہے کہ نہیں

چهپا رہی ہے زمانے سے آج کل جس کو
وہ بکهرا بکهرا سا قصہ ہمارا ہے کہ نہیں

جو رات ٹوٹ کے آیا تها میرے قدموں میں
کوئی بتادے مجهے وہ ستارا ہے کہ نہیں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں