نظر کے سامنے کچھ دائرے تھے
ہمارے لوگ ان میں ناچتے تھے
محبت کے سفر میں آسماں پر
ستارے مسکرانے لگ گئے تھے
جزیرہ ڈوبتا دیکھا سبھی نے
سمندر کے کنارے بھیگتے تھے
کمانیں سب کے ہاتھوں میں تنی تھیں
نشانے پر چمکتے آئنے تھے
نجانے کس لیے خاموش ہے تُو
تری باتوں میں کتنے ذائقے تھے
دیے رکھے ہوئے تھے پانیوں میں
اندھیروں میں گھرے سب طاقچے تھے
تری باتوں سے موسم سبز ہوتا
ترے جملے ہوا میں تیرتے تھے
تری جانب بھلا کیوں چل پڑے ہم
کئی رستے ہمارے سامنے تھے
مرے آگے کہانی میں بھی اشعرؔ
نئے کردار اونچا بولتے تھے