"مُقتدرہ قومی زبان” کا قیام ١٩٧٣ ٕ کے آئینِ پاکستان کی شِق نمبر ٢٥١ کے تحت اکتوبر ١٩٧٩ ٕ میں عمل میں آیا ۔اِس اِدارے کے قیام کے مقاصد یہ تھے کہ قومی زبان اُردو کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دُورکرکے اور اُس کے اِستعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے نیز مختلف علمی،تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اِشتراک و تعاوُن کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بناۓ ۔ ظاہر اس طویل مدت کے دوران میں مقتدرہ نے وہ اہداف حاصل کر لیے جن کے تحت اِس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا ، انگریزی بھی وہیں ہے اور اُردو بھی ۔ مقتدرہ نے اپنا مشکل نام تک بدل کر دکھا دیا کہ آسان اُردو کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا اب اِس اِدارے کا نام اِدارہ فروغ قومی زبان ہے ۔یہ ادارہ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن حکومتِ پاکستان کے تحت کا کرتا ہے ۔دیگر علمی ، ادَبی اور طباعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ” اخبارِ اردو ” کے نام سے ماہانہ ادبی رسالہ بھی شایع کیا جاتا ہے ۔اس کے سرپرست ڈاکٹر راشد حمید صاحب، مدیرِ اعلیٰ سیّد سردار احمد پیرزادہ صاحب ،نایب مدیر تجمل شاہ صاحب اور معاون شگفتہ طاہر صاحبہ ہیں ۔”اخبارِ اُردو” کے تازہ شمارے میں کشمیر سے متعلق مضامین بھی شامل ہیں ۔جو نوعیّت کے اِعتبار سے بہت اہم ہیں۔ ” تحریکِ آزادیِ کشمیر اور اُردو ادب” کے زیرِ عنوان مضمون میں پروفیسر فتح محمد ملک لکتھے ہیں :
” تنازعہ کشمیر کے باب میں ہمارے ادیبوں نے آغازِ کار ہی میں وابستگی کی بجاۓ لا تعلقی کا رویہ اپنایا تو ڈاکٹر تاثیر نے اُنھیں غیر جانب دارنی (داری !) کی گپھاٶں سے باہر نکل کر حق کی تایید اور باطل کی تردید کی روِش اپنانے کا مشورہ دیا۔ہمارے ادیب آج اسی روش پر قایم ہیں ” (ص٢)،
ڈاکٹر مقصود جعفری اپنے مضمون” کشمیر بنے گا پاکستان” میں لکھتے ہیں:
” پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں۔قایدِ اعظم نے بجا طور پر کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔کشمیر کے پہاڑ پاکستان کا دفاعی حصار ہیں۔کشمیر سے بہنے والے دریاٶں کا رُخ پاکستان کی جانب ہے۔بھارت آبی جاحیت کر رہا ہے۔اُس کی سازش ہے کہ کشمیر کے دریاٶں پر ڈیم بنا کر اور پاکستان کی طرف بہتے پانی کا رُخ اپنی طرف موڑ کر اِس ملک کو بنجر بنا دے۔”(ص٤)،
محترم ڈاکٹر نثار ترابی کے مضمون کا عنوان ہے” غزل اور آزادیِ کشمیر” اِس مضمون میں اُنھوں نے اعجاز رحمانی،سیّد عارف، شاہدہ لطیف، ڈاکٹر مقصود جعفری،جاوید احمد،اصغر عابد،عبد العزیز فطرت،احمد ندیم قاسمی،محسن بھوپالی،افتخار عارف،صہبا اختر،خاطر غزنوی،غلام نبی خیال،احسان اکبر،جلیل عالی،احمد شمیم،جمیل یوسف،ریاض الرحمن ساغر،شبنم رومانی،محسن احسان،فہمیدہ ریاض،ظفر اقبال،سحر انصاری،شاہدہ حسن،غلام محمد قاصر،صابر آفاقی،وضاحت نسیم،خالد معین،منور ہاشمی،اسلم فیضی،نثار ترابی،ڈاکٹر قاسم جلال،ناصر بشیر،ڈاکٹر شفیق چغتاٸ،سیدہ آمنہ بہاررونا،ریاض ندیم نیازی،جنید آذر،شمسہ نورین،وسیم جبران،مخلص وجدانی،اعجاز احمد اعجاز،محمد عارف اور لطیف راز کے اشعار شاملِ مضمون کرکے شعرا کے موضوع کے حوالے سے دِلی جذبات کو خُوب صورتی سے اُجاگر کیا ہے ۔ جلیل عالی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
گِرا گِرا کے وہ بارود ہار جاۓ گا
ہم اِک نگاہ میں ملبے سے گھر نکالتے ہیں
ڈاکٹر نثار ترابی کا شعر:
درِ قفس سے رہائی پاۓ چنار وادی
کُھلی فضاٶں میں مُسکراۓ چنار وادی ،
سیّد فیض جالندھری کے مضمون کا عنوان ہے: "کشمیر:جنّت نظیر،علمی،ادبی،ثقافتی مظہر:مختصر جایزہ” ۔مضمون کے آخری حصّے میں وہ لکھتے ہیں :
” رام راج کی طاقتوں نے آج کے کشمیر کو حقِ خود اِرادیت کا حق دینے سے اِنکار کیا جا رہا ہے لیکن کشمیریوں کو یقین ہے کہ اُن کی سر زمین کے اُفُق سے آزادی کا سورج طلوع ہو کرخ رہے گا،اِس زبردستی کی غُلامی سے کشمیری اپنے آپ کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔فانی تحسین جعفری،غلام احمد کشفی،آذر سرحدی،احمد شمیم اور طاٶس بانہالی عصرِ حاضر کے مجاہدین شعرا ہیں جِن کے پُر جوش اور ولولہ انگیز نغمے اہلِ کشمیر کی جنگِ آزادی میں بانگِ درا بنے ہوۓ ہیں اور اب غزل گوٸ کی بجاۓ کشمیری شاعری نے عوام کے جذبہ جہاد کو ابھارنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے”(ص١٢)،
طالب حسین ہاشمی نے اپنے مضمون” کشمیر جنّت نظیر علّامہ مُحمّد اِقبال کی نظر میں ” میں اُردو اور فارسی اشعارو افکار کی روشنی میں اپنے ممدوح کے تصوراتِ فکر و نظر پر روشنی ڈالی ہے ۔مضمون نویس نے بتایا ہے کہ علّامہ مُحمد اقبال کی خواہش پر ١٤ ۔اگست ١٩٣١ ٕ میں پہلی بار یومِ کشمیر منایا گیا۔کشمیری مسلمان علّامہ محمد اقبال سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں۔اس محبت کی وجہ سے کشمیری اپنے لختِ جگروں کے نام اقبال سے جوڑتے ہیں۔ہر برس یومِ اقبال نہایت عقیدت واحترام سے مناتے ہیں”(ص١٥)،
منیرا شمیم نے” یک جہتیِ کشمیر اور اہلِ قلم” کے زیرِ عنوان لکھا ہے،اُن کی راۓ میں :
” ٥ فروری کا دن کشمیری بھاییوں کے ساتھ اظہارِ یک جِہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔آج ہر پاکستانی مقبوضہ وادیِ کشمیر میں بھارتی تسلّط سے آزادی کے لیے برسرِ پیکار ہے۔” کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ لگانا آسان ہے لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام اہل ِقلم جِن کی وابستگی کِسی بھی جماعت سے ہو وہ کُھل کر کشمیر کے مسیلے کو اُجاگر کریں اور بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے مظلوم کشمیریوں کی آواز بنیں”(ص١٦)،
محمد داٶد کیف نے اپنے مضمون بعنوان: "جھیلیں اُداس ہیں” میں کشمیر کی پُرکشش جھیلوں کی سیر کراٸ ہے۔اُن میں ولر،مانسبل،کوثر ناگ،ڈل، شیشرم ناگ،گنگا بل،آنچار،تارسر،مارسر ،ہارون اور کالی نام کی جھیلیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ایک عُمدہ اور پُرلطف مضمون ہے۔
” کشمیر میں رنگِ آزادی” یہ راجہ محمد عتیق افسر کے مضمون کا عنوان ہے۔وہ لکھتے ہیں:
” سختی ،تنگی اورامتحان کے لمحات صدیاں (صدیوں!)محسوس ہوتے ہیں لیکن چشمِ تصور سے ہی اُس قیامت خیز سختی اور امتحان کو محسوس کیجیے جو کشمیری عوام پہ صدیوں سے مسلّط ہے تو آپ اِس ظلم اور اِس جبر کو کوٸ نام دینے سے خود کو قاصر پاییں گے،جی ہاں کشمیری عوام پہ یہ وبال گزشتہ چھے ماہ سے مسلّط نہیں ہے اِس جبرِ ناروا کو تقریباً دو صدیاں بیت گیی ہیں "(ص٢٥)،
کشمیر سے متعلق ان مضامین کے ساتھ کچھ خبریں بھی شایع کی گیی ہیں جن میں اس اہم معاملے کو برنگ دگر بیان کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک خبر اندرونی سرورق پر موجود ہے جس میں صدر آزادجموں و کشمیر سردار مسعود خان نے ادیبوں شاعروں پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف جہاد کریں۔ ” اخبار اردو اسلامی آباد کے زیر نظر شمارے میں کشمیر کی دلآویزیوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی دہاییوں سے جاری جدوجہد کی کیی جہتوں کو سامنے لایا گیا ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر راشد حمید اور سید سردار احمد پیرزادہ اور ان کے معاونین کی کاوشیں قابل صد ستایش و آفریں ہیں،پاکستانی اور بھارت کے درمیان کشمیر ایک اہم اور سلگتا ہوا معاملہ ہے،دنیا کو اس کی حساسیت کو سمجھنا ہو گا اور کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے انتہاٸ سنجیدہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ اس عظیم خطے کو مزید خونریزی اور ناروا ظلم سے بچایا جا سکے ۔
ماہنامہ” اخبار اردو” کا یہ شمارہ فروری ٢٠٢٠ ٕ کا ہے،جلد نمبر ٣٨،شمارہ نمبر دو،