کالم

امکان : پروفیسریوسف خالد

وطنِ عزیز کے سماجی منظر نامے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے – کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کے ہر شعبہء زندگی میں مفاد پرست اور طاقت ورافراد کی ایک پوری نسل موجود رہی ہے جس نے بد قسمتی سے اپنے ملک سے کم اور اپنے مفادات سےزیادہ وفا کی ، یہ نسل اب اپنی طبعی عمر پوری کرنے کو ہے – گزشتہ کئی دہائیوں کی بد بو دار کہانیاں اب اپنے انجام کو پہنچنے والی ہیں – ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے نئی نسل سے ایسے با صلاحیت نوجوان ملک و قوم کی خدمت کے لیے آگے آئیں جن کا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو – جنہیں خدمت کر کے عزت کمانے کی دھن ہو جنہیں حقیقی خوشی حاصل کرنے اور ملک کی ترقی کا خواب شرمندہء تعبیر کرنے کا جنون ہو – یہ دھرتی ایسی بھی بانجھ نہیں کہ ملک کے لیے نوجوان قیادت مہیا نہ کر سکے –
آج میڈیا کا دور ہے اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے اثرات بہت زیادہ ہیں – اگر تمام پاکستانی تہیہ کر لیں کہ انہوں نے ہر برائی اورہر برے شخص کی حوصلہ شکنی کرنی ہے اسے سماجی طور پر تنہا کرنا ہے اور اچھے لوگوں کی تکریم کرنی ہے انہیں تعاون فراہم کرنا ہے – انہیں آگے لانا ہے، ملکی نظم و نسق ان کے حوالے کرنا ہے اور اپنی تمام وابستگیوں کو ملکی مفاد اور ترقی سے مشروط رکھنا ہے – اور سوشل میڈیا پر ہر اچھے کردار کی تحسین کرنی ہے توایک ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے جو تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہواگریہ رویہ جڑ پکڑ جائے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے دس سالوں میں ہم ایک نیا منظر نامہ تشکیل دے سکتے ہیں
ایک مشق بہت ضروری ہے، وہ ہے سوچنے کی مشق — کچھ دیر تنہائی میں بیٹھ کر سوچا جائے کہ ہم کیا ہیں ہم کیا کر رہے ہیں ہمیں کیا کرنا چاہیے ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے – کیا ہم اپنی سوچ اور عمل کی ذمہ داری اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج سے واقف ہیں- کیا ہم گروہی، نسلی،جماعتی، مذہبی اورلسانی تعصبات کا شکار تو نہیں ؟ کیا کوئی ایسا تو نہیں جو ہمیں ورغلا رہا ہو یا کوئی ہمیں ہمارے کسی چھوٹے سے مفاد کے عوض خرید رہا ہو –
ایسے ہی اور بھی بہت سے سوالات از خود اس سوچنے کے دوران میں جنم لے کر ہماری سوچ کو وسعت دے سکتے ہیں – ہماری سوچ کی کجی دور کر سکتے ہیں
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سوچنا ایک عمل ہے جو بتدریج گہرا ہوتا ہے – اور بالآخر ہمیں یہ صلاحیت عطا کر دیتا ہے کہ ہم ایک خود کار نظام کے تحت سوچنا شروع کر دیتے ہیں – جیسے جیسے سوچنے کی ریاضت میں اضافہ ہوتا ہے ہم دانائی اور حکمت سے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں – یوں ہم بن سوچے بولنے کی قبیح عادت سے بھی چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں
دیکھا جائے تو ہم مسائل اس لیے حل نہیں کر پاتے کہ ہم سوچتے نہیں اور مسائل کے حل کے لیے مختلف امکانات پر غور نہیں کرتے – ایک مسئلے کو حل کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں – مگر ہم عجلت میں کوئی ایک طریقہ آزما کر جب ناکام ہو جاتے ہیں تو بد دل ہوکر بیٹھ جاتے ہیں – یہی وہ موقع ہوتا ہے جب ذہن کو مزید فعال کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے – کم فہم اور ذہین شخص میں یہی فرق ہوتا ہے کہ کم فہم کے پاس مسئلے کو حل کرنے کا عمومآ ایک آدھ ہی طریقہ ہوتا ہے وہ کام کر جائے تو ٹھیک ورنہ وہ مسئلے کے حل کے لیے جسمانی قوت کا استعمال شروع کر دیتا ہے – سماجی جھگڑے اسی عجلت اسی بد دلی اور اسی کج فہمی کی پیدا وار ہوتے ہیں – اس کے بر عکس ذہین شخص متعدد حل پیش کر کے باہمی اختلافات کم کرنے اور مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ،غالب کا ایک شعر اس حوالے سے بہت معنی خیز ہے کہ
ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
” یوں ہوتا تو کیا ہوتا ”
یہی طرزِ فکر در اصل ذہن کی فعالیت کا مظہر ہے
ہمیں قرانِ حکیم میں خالقِ اکبر نے بار بار سوچنے اور تدبر کرنے کی تلقین اسی لیے کی ہے کہ ہم معاملات کو بہتر سمجھ سکیں اور ایک متوازن طرزِ عمل اختیار کر سکیں – دیکھا جائے تو انسان کا سارا ارتقائی سفر سوچنے کے عمل سے ہی عبارت ہے – کچھ دیر کے لیے چشمِ تصور سے پتھر کے دور کے انسان کی زندگی کا جائزہ لیں اور پھر آج کی ہوش ربا ترقی کو سامنے رکھ کر موازنہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ طویل ارتقائی سفر انسان کے سوچنے کی حیران کن صلاحیت کا بین اظہار ہے – آج اگرکچھ صدیاں پہلے کا انسان زندہ ہو جائے تو اسے یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا –
بات کہیں سے کہیں چلی گئی لیکن یہ ضروری تھی – ضروری اس لیے تھی کہ ہم امکانات پر نظر رکھنے اور سوچنے کی افادیت کو محسوس کر سکیں –
ہمارے ہر شعبہ زندگی کو نئی سوچ ،توانا فکر،دانش اوراخلاقی اقدار کی حامل پر جوش قیادت کی ضرورت ہے – نوجوانوں کے لیے یہ وقت ہے آگے بڑھنے کا اور ایک نیا عہد تشکیل دینے کا- خلا ہمیشہ بھرنے کے لیے ہوتے ہیں یہ خلا بھی پر ہو گا
یہ خوش خیالی مرا قیمتی اثاثہ ہے
مجھے یقیں ہے نئی صبح پل رہی ہے کہیں

younus khayyal

About Author

1 Comment

  1. زیب حسن

    مئی 14, 2020

    بھت عمدہ سر۔۔۔

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی