افسانہ

چنی چچا کا سگریٹ : شازیہ مفتی

شازیہ مفتی
شازیہ مفتی
 خود خوشیو ں سے محرو م لیکن دوسروں میں خوشیاں بانٹتے چنی چچا بہت پیارے انسان تھے ۔ پرخلوص ، ہمدرد اور بھلے مانس ۔وہ جگت چچا تھے۔ فی زمانہ امارت کی درجہ بندی میں کسی نچلے پائے پر کھڑے تھے ۔ غریب تھے اور شریف بھی تھے ۔ لاولد تھے ، لاکھ بہنوں بھاوجوں کے اکسانے کے بانجھ بیوی کا ساتھ نبھایا ۔ وہ اللہ کی بندی بھی ایسا وفا کا امتحان لے کر گئیں بیچارے چنی چچا کو کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا ۔ پتہ نہیں کون کون سے مرض ان بیچاری کی جان کو لگے تھے جن کے علاج کراتے کراتے سب کچھ تھوڑا تھوڑا کرکے بک گیا .تعلیم خاص نہ تھی لیکن چنی چچا کی محنت اور خاندانی نجابت کو دیکھتے ہوئے ایک کارخانہ دار نے نو کری دے رکھی تھی یہ بھی ان کے اعتماد پر پورا اترتے ۔
سنا ہے ایک دفعہ سانس گھٹنے کی شکایت ہونے لگی بیوی کو ، کسی نے بتایا کشمیر میں ایک حکیم جی ہیں وہاں لے جاو ۔ آبائی گھر بیچ کر بیوی کو لے گئے کشمیر۔ حکیم جی کی دوا میں نجانے کیا تھا تیسری خوراک نے ہی مشکل آسان کردی ۔ چار گنے کرایے پر بیگم کی میت واپس لائے ۔ دنوں یاد کرکر کے روئے آخر نیک دل مالک سمجھا بجھا کر واپس نوکری پر لے گئے اور وہیں کار خانہ میں رہنے کو جگہ دے دی ۔
سب کو تو چنی چچا اکیلے ہی یاد تھے۔ کیونکہ اس سانحہ کو بیتے بھی بہت برس ہو گئے تھے چھٹی کے دن سمیع اللہ صاحب کی کئی فون کالوں کے بعد آتے ۔ اورآتے ہی فرماتے
” بھائی صاحب شرم آتی ہے ، قدر کھودیتا ہے ہر روز کا آناجانا”
شطرنج کو ترسے ہوئے انہیں لپک کر گیٹ سے وصول کرتے اور پھر” گئی بھینس پانی میں "
کھانے بھی وہیں چائے بھی اور چائے بھی بے تحاشا ۔ بیگم صاحبہ مارے غصے کے تلملاتی پھرتیں ۔ کئی عیادتیں ، تعزیتیں ، مبارک بادیں دینے کو چھٹی کے دن کا انتظار کرتیں اور یہاں بازی ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتی ۔
کیونکہ چنی چچا سے بہت پیار تھا صالحہ بیگم کو ان کے ممیرے بھائی تھے اور بالکل ان کے نانا صاحب کے ہمشکل اس لیے برداشت کرتیں ورنہ کوئی ایرا غیرا ہوتا تو دیوان خانے میں داخلہ بند کردیتیں نہایت جلالی سیدانی تھیں ۔
چنی چچا بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے ، کہیں گھوڑا بن کر سیر کرارہے ہیں اور کبھی کندھوں پر اٹھائے پھرتے ۔ ان کی جیبیں ہمیشہ مکھن ٹافی ، چڑیا کے انڈوں اور قسمت پڑی کے پیکٹوں سے بھری ہوتیں ۔ جو بچوں کو پہاڑے ، آیت الکرسی ، my pen وغیرہ سنانے کے بعد انعام میں ملتے ۔
چنی چچا کی واحد عیاشی ان کی تفریح اور شوق سگریٹ نوشی تھی ۔ ان کی بیوی مرحومہ اپنے خفقان میں سگریٹ کی بو کو بھی اپنا وہم ہی سمجھتی رہیں ۔
ٹرفل فائیو سے سگریٹ نوشی شروع کرنے والے چنی چچا کو قسمت نے ایمبیسی فلٹر پر پہنچا دیا ۔ ایک دفعہ تو مکھن ٹافی نکالتے ان کی جیب سے مڑی تڑی بیڑی گرگئی جسے کسی شکایتی ٹٹو نوکر نے سمیع اللہ صاحب کو پہنچا دیا ۔ یا وہ اپنی اماں کی رحلت پر روئے تھے یا اب ، ہتھیلی پر بیٹری دھری تھی اور اسے دیکھ دیکھ آنسو بہا رہے تھے ۔ اگلی شطرنج کی بازی پر چائے کے ساتھ گولڈ لیف بھی چل رہی تھی ۔ سمیع اللہ صاحب تو ایک سگریٹ سلگا کر ایش ٹرے کے کنارے ٹکا دیتے اور کھیل میں مصروف ہوجاتے اور چنی چچا پورا کھیل دخانی انجن بنے رہتے ۔ جاتے جاتے بچی کچھی ڈبیا کے ساتھ ایک سربمہر پیکٹ بھی چنی چچا کو دے دیے جاتے کہہ کر "تمہاری آپا روٹھ جائیں گی سگریٹ دیکھ کر اور ہاں یہ ہفتہ بھر کا کوٹہ ہے وعدہ کرو اس سے زیادہ نہ پیو گے ” .
ایفائے عہد میں تو چنی چچا مثال تھے ۔صالحہ بیگم بہت خفا ہوتیں کیوں چنی چچا کو سگریٹ دیتے ہیں یہ صریحا دشمنی ہے مگرسمیع اللہ صاحب کی نرالی ہی منطق تھی۔
” چنی چچا کی نامراد زندگی میں اور ہے کیا اب سگریٹ سے بھی دل نہ لگائیں کیا ” چنی چچا کے لیے یہ سگریٹ ہفت اقلیم سے بڑھ کر ہوتے اگلی شطرنج کی بازی تک وہ راشننگ کرکے چلتے ان کی ۔
پھر قریبی عزیزوں میں ایک شادی کی تقریبات شروع ہوگئیں یہاں بھی مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے انتظام کیا گیا ۔ ایک بزرگوار مہمان آئے لندن سے بہت سے الجھے ہوئے رشتوں میں سے آخر کار ان کو بچوں کے تایا کا عہدہ سونپاگیا کیونکہ صالحہ بیگم ان کو کسی دور کے رشتہ سے بھی اپنا بھائی یا بہنوئی ماننے کو تیار نہ تھیں ۔ جرم یہ تھا ان کا کہ صالحہ بیگم سے مصافحہ کرنے کو لجلجا سا میلے ناخنوں والا ہاتھ بڑھا دیا تھا نگوڑے کاٹھے انگریز نے ۔
چھٹی کے دن کا تصور شطرنج اور چنی چچا کے بغیر ممکن ہی نہ تھا ۔ دھوئیں کے مرغولے کبھی فیل پر شہہ اور کبھی وزیر بچاو کے نعرے اور چائے کے خالی ہوتے بھرتے پیالے ۔ اچانک ” شہہ مات ” کی جگہ check mate کے لفظ نے لے لی اور گولڈ لیف کی جگہ ویانا سگار کا دھواں چھاگیا ، لیکن وہ ایک ہی سگار تھا ۔ نادہندہ خودساختہ انگریز تایا صاحب کا جس کے بعد چنی چچا نے ان کو سگریٹ پیش کردی ۔ دگنی چوگنی رفتار سے دخانی انجن اور نامانوس الفاظ مردانہ کمرے سے بادلوں کی طرح اڑاڑ کر بکھرتے رہے ۔ اگلے دن کھانے پر شپا شپ قورمہ اڑاتے اور تافتان کے مزے لیتے تایا صاحب نے فرمایا
"دیکھا آج کس طرح میں نے چنی چچا کا دل رکھا ۔ قسم اللہ پاک کی ساری عمر ہوانا سگار کے کسی اور سگار تک کو منہ لگانے کے قابل نہ سمجھامگر بیچارے چنی چچا کا دل ٹوٹ جاتا اگر سگریٹ کو منع کرتا ”
لیجئے یعنی کہ ایک تو چنی چچا کا ہفتہ بھر کا مال بے رحمی سے دھوئیں میں اڑا دیا اور احسان بھی تایا صاحب کا حد ہوگئی ۔
واقعی دنیا میں قدر نا شناس لوگوں کی کمی نہیں ۔ آس پاس دیکھیے کہیں آپ بھی کسی بے فیض کے ہاتھوں چنی چچاکی طرح اپنی قیمتی پونجی  اور وقت تونہیں لٹارہے۔
          ( سگریٹ نوشی مضرِ صحت ہے )

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

افسانہ

بڑے میاں

  • جولائی 14, 2019
  افسانہ : سلمیٰ جیلانی انسانوں کی کہانیاں ہر وقت ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہیں یہ ان کی روحوں کی
افسانہ

بھٹی

  • جولائی 20, 2019
  افسانہ نگار: محمدجاویدانور       محمدعلی ماشکی نے رس نکلے گنے کے خشک پھوگ کو لمبی چھڑی کی