شازیہ مفتی
کل صبا ملی ، بہت اصرار کرکے اپنے گھر لے گئ میری سہیلی بچپن کی ہمجولی جو کبھی بہت خوش قسمت لگتی تھی اور پھر وہی قسمت اسے دھوکا دے گئ تھی لیکن قسمت کا کیا ہے پھر دوست ہوجائے گی موسموں کی طرح یا شاید سمندر کی موجوں کی طرح ۔
چائے بناتے بناتے کہنے لگی ۔
بہت دن ہوئے ایک دفتر میں گئ وہاں شہریار ڈپٹی کمشنر کی کرسی پر برا جمان تھا ۔ شاید اپنے کمرے کے کسی چور کیمرے سے اس نے باہر بیٹھے بدحال سائلین میں مجھے دیکھا اور پہچان گیا ۔ ایک سرکاری اہلکار نے مجھے ایک چٹ دی جس پر لکھا تھا ۔
” دفتر میں تشریف لے آئیے ”
سرکاری اہلکار کے پیچھے پیچھے فائل سینے سے لگائے اپنے پیروں پر نظر جمائے دفتر میں داخل ہوئ ۔ لمبی چوڑی میز کے دوسرے سرے پر سائے کی طرح وہ کھڑا تھا اور میں شاندار کمرے کی خنکی میں سرسے پاوں تک پسینے سے بھیگی چادر میں پاوں پر نظریں جمائے تھی ۔
” پلیز بیٹھ جاوء ”
اس کی آواز اب بھی پندرہ سال پہلے جیسی تھی گونجدار کسی صداکار فنکار جیسی ۔ اور اس سے زیادہ حیران کرنے والی بروٹ پرفیوم کی خوشبو تھی ۔ جو سالوں پہلے اس کو سالگرہ پر دیا تھا یاد ہے نا ہم چار سہیلیوں نے چندہ ملا کر ۔
” میں سمجھا تمہاری امّاں ہیں ۔ تم بالکل ان جیسی ہوگئ ہو ”
اس کا سادہ سا لہجہ مجھے گہرا طنز لگا ۔
” بہت بدل گئیں ”
اب اس کے لہجہ میں تاسف تھا بلکہ ایسا افسوس جیسے کسی بہت عزیز کے مرجانے پر پرسا دیا ہو ۔
چرمی صوفے میں دھنس کر بیٹھی سوچتی رہی کیا کہوں ؟ پنکھے کی ہوا نے سر سے لپٹی چادر ذرا سی سرکادی تھی ۔ اور وہ دیکھتے ہوئے بولا
” تم تو بالکل بوڑھی ہوگئیں بال تک سفید ہوگئے ”
پھر میں نے خود سے عمر میں چودہ سال بڑے مرحوم شوہر کی پنشن اورسیکورٹی پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی فائل میز پر اس کے سامنے کھسکادی جو لیےء لیےء سال بھر سے ِاس دفتر سے اُ س دفتر کی خاک چھانتی لال فیتے کے ضابطوں یا شاید بے ظابطگیوں کو جھیلتی پھر رہی تھی ۔
” اوہ !
بہت افسوس ہوا ۔ خیر اللہ کی مرضی ”
” تمہاری شادی والے دن میں کتنے گھنٹے وہیں پی سی کے سامنے کھڑا رہا تھا ”
” تمہیں کم ازکم مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیےء تھا ”
” تمہارے جھوٹے وعدے کی وجہ سے میں نے رات دن ایک کردیےء تھے پڑھ پڑھ کر اور تم نے میرے رزلٹ سے پہلے شادی کرلی ”
مجھے کوئ جواب نہیں دینا تھا مجھے صرف فائل پر اس کے دستخط چاہیےء تھے مجھے اسے نہیں بتانا تھا کہ جب لائبریری میں مقابلہ کے امتحان کی تیاری کرتے کرتے اس نے اچانک کتابوں کاغذوں کے پلندے پر سے سر اٹھا کر مجھ سے کہا تھا
” میں یہ سب تمہارے لیےء کررہا ہوں ".
میں اسے دیکھ کر مسکرادی تھی اور اس کے چہرے پر پھیلی صبح نو کی روشنی سے جیسے لائبریری کا وہ پورا کونا روشن ہوگیا تھا ۔
” میں نے جھوٹ نہیں بولا کبھی ”
دستخط شدہ فائل اٹھا کر کھڑے ہوتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے دستخط سے میرے گھر کا سرد پڑتا چولہا جل جائے گا اور میرے بنیادی ضروریات کو ترستے بچّے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرسکیں گے یہ اس قدر بڑا اطمینان تھا جو میری روح تک کو پرسکون کرگیا ۔
اور پھر اپنے پیروں سے جمی نظریں اٹھا کر اس کے کامیابی اور طمانیت بھرے وجود کو دیکھا اور اسے کہہ دیا
” اگر میں تمہیں اس وقت بتادیتی کہ میرا نکاح ہوچکا ہے تو تم آج اس کرسی پر نہ بیٹھے ہوتے ۔ یہ میرا احسان ہے ساری زندگی یاد رکھنا ”
اور نظریں پیروں پر جمائے فائل سینے سے لگائے چادر سر سے لپیٹے دفتر سے باہر نکل آئ ۔ اس نے مجھے بہت آوازیں دیں دروازے تک میرے پیچھے پیچھے آیا لیکن اس کی آواز کا جواب اب بھی نہیں دینا تھا ۔جب اس لیےء نہیں دیا تھا کہ اس کا مستقبل تباہ ہوجاتا اور آج میرے اس کی آواز پر پلٹ جانے سے اس کا گھر تباہ ہوجاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیتلی سے پیالی میں انڈیلی جانے والی چائے کی بھاپ عینک کو دھندلا کرگئ تھی یا شاید میری آنکھوں میں آئے آنسوں نے منظر دھندلا دیا تھا ۔ . . . . . . . . . . . . . .
شازیہ مفتی