لہرالہرا کر چلتے ہوئے ہلکے نیلے رنگ کے ویسپا سکوٹر کاہینڈل سنبھالے نجیب احمدذرا سا ترچھا بیٹھے ہوئے تھے۔میں ان کے پیچھے سوار تھا۔سچی بات ہےان کے بیٹھنے کا یہ انداز مجھےکچھ عجیب لگا۔ میں نے کہا:
’’ نجیب صاحب!کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ آپ ٹیڑھا بیٹھے ہوئے ہیں؟ ‘‘
انہوں نے گردن موڑی اور ہنستے ہوئےبولے:
’’اسی تو سکوٹر سیدھا چل رہا ہے۔تم نے یہ نوٹ نہیں کیا !‘‘۔
منطق تو پلّے نہ پڑی پھر بھی یہ جواب سن کر مجھے بھی ہنسی آگئی۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے گردن پھر ذرا سی گھمائی اورمجھ سے اچانک سوال کیا :
’’ حامدیزدانی! یہ بتاؤکہ تم جرمنی چھوڑ کر واپس لاہور کیوں چلے آئے؟‘‘
ایک دو لمحے تو کچھ جواب سوجھا ہی نہیں مجھے۔شہر کولون کی ہموار سڑکوں پر بہتی کاروں کے دھیمے دھیمے ردھم سے ایک بارپھر لاہوری ”کھڈوں“ کے پُر شور زیروبم نے طبیعت ویسے ہی تل پٹ کررکھی تھی۔ نسبت روڈ سے چلے ہوئے، مجھے لگتاتھا، جانے کتنا زمانہ بیت چکا او ر ابھی ہم مزنگ چونگی تک ہی پہونچے تھے۔جوہر ٹاؤن کس عہد میں پہونچیں گے اس بات کا تعین ابھی قبل از وقت تھا۔لاہور کے فراق میں جرمنی میں گذری راتیں تو خیر بسر ہوگئیں مگر ہجرکے دنوں کی طرح یہ سفر البتہ مجھے کٹتا نظر نہ آتا تھا:
وہ رات تھی تو بسر ہوگئی کسی صورت
اگریہ دن ہے تو کٹتا نظر نہیں آتا
مجھے اس’تعمیری‘ مہم پر روانہ کرنے کا سہرا خالد احمد کے سر تھا جنھوں نے لاہور میں گھر تعمیر کروانے کی میری خواہش کا سنتے ہی مجھے نجیب احمد کے سکوٹر کی عقبی نشست پر بیٹھنے کا حکم دیاتھا۔
’’اس سلسلہ میں نجیب تمہاری مدد کرے گا“۔ انہوں نے کہا تھا۔ اور بس۔۔۔
اور اب نجیب مجھے پلاٹ دکھانے جوہر ٹاؤن لے جارہے تھے۔
’’جواب نہیں دے رہے۔ کیا ہوا؟“۔سردہوا، گرد یا شاید شور سے بچانے کے لیے سر اور کانوں کو رنگین مفلر میں لپیٹے نجیب احمد نے اچھرہ کی طرف جاتے فیروز پور روڈپر باہم دگر الجھتی ٹریفک کے سیلاب کا حصہ بننے کے بعد مجھے پھر سے مخاطب کیا۔
’’بس دل نہیں لگا وہاں۔لاہور بہت یاد آتا تھا۔۔۔“ میں نے سڑک کے شورکو شکست دینے کی غرض سے حتی المقدور زور سے جواب دیا۔
’’ہاہاہا۔۔۔سمجھ گیا۔ سب لاہوریوں کا یہی مسئلہ ہے۔ اب لو مزے لاہور کی جوابی محبت کے۔“ انہوں نے سکوٹر کو ایک ٹھیلے میں لگنے سے بمشکل بچاتے ہوئے اور ہنستے ہوئے کہا۔
’’آپ نے کبھی کسی دوسرے دیس بسنے کا نہیں سوچا!؟“ میں نے خواہ مخواہ بات بڑھانے کے لیے اور اپنی توجہ کے ارتکاز کے لیے پوچھا۔
’’کس نے؟۔۔۔ میں نے؟۔۔۔کیا بات کرتے ہو۔ یار، ہم کہیں اور رہ ہی نہیں سکتے۔“ وہ سکوٹر کا گئیر بدلتے ہوئے بولے۔
’’ہم۔۔۔؟“ میں نے وضاحت چاہی۔
’’ہاں، ہم۔۔۔میرا مطلب ہے میں اور خالد احمد۔کہیں اور جا رہنے کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔یہی مانوس ماحول ہماری زندگی ہے۔ ان شب وروز سے باہر ہمارے لیے جینے کے کچھ معنی نہیں۔یہیں جوانی کے دن گزارے ہیں۔ بڑھاپا بھی یہیں بسر ہوگا۔ ویسے جوانی بھی کیا تھی ہماری۔ بڑھاپا ہی تھا، یار۔یہی محسوس ہوتا رہا:
یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی
عمر جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا
بہر حال، کچھ بھی ہو اب اس شہرکو، اس ملک کو چھوڑنا، اس سے بچھڑنا۔۔۔! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔دیکھو،سادہ سی بات ہے۔ اس کا تعلق طبیعت سے بھی ہوسکتاہے اور عمر سے بھی۔ ہم اب عمر کے جس۔۔۔۔۔“۔
نجیب احمد کہہ رہے تھے اور میرے ذہن میں ان کی غزل کا مطلع گونج رہاتھا:
کچھ اِس کے سوا خواہشِ سادہ نہیں رکھتے
ہم تجھ سے بچھڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے
میں نے یہ شعر انہیں سناتے ہوئے کہا:”آج مجھے آپ کا یہ شعر کچھ کچھ سمجھ میں آگیا۔ مگر آپ سچ سچ بتائیں یہ شعر تھا کس کے لیے؟ لاہور کے لیے یا خالد احمد کے لیے؟‘‘
’’شعر کُھل جائے تو اچھا نہیں لگتا۔جو حُسن چُھپنے میں ہے وہ آشکار ہونے میں نہیں۔اچھا شعر ہر قاری پر اس کے ذوق اور فہم کی حد تک ہی کُھلتا ہے۔ اب تم جو چاہو سمجھ لو، جدھر چاہو، لے جاؤ اس شعر کو۔“ وہ کہہ رہے تھے۔
’’لیکن خالد احمد تو کل شام اپنے ہاں حبیب الخیری کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھ رہے تھے کہ ان کے ملک سے باہر جانے کے کیا امکانات ہیں؟ کیونکہ ان کے کئی ادبی دوست بیرونِ ملک اعلیٰ سرکاری اور سفارتی عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں۔“ میں نے جو بھی فوراً ذہن میں آیا کہہ دیا۔
’’پاکستان سے باہر جانا اور وہ بھی خالد احمدکا۔۔۔!“ نجیب قہقہہ لگاتے ہوئے بولے: ”بھول جاؤ اس بات کو۔ پاکستان چھوڑنا تو ایک طرف خالد احمد لاہور سے باہرکیسے جئے گا یہ سوچنا بھی بہت مشکل ہے۔ میں نے کہا نا۔۔۔ہمارا ماحول ہی ہمارا مزاج ہے، ہماری سوچ ہے، ہمارا معمول ہے۔۔۔۔‘‘
’’ہاں، خیری صاحب نے بھی خالد صاحب کا ہاتھ دیکھ کر ایسا ہی کچھ کہا تھا کہ ان کا بیرونِ ملک سرکاری سفر ممکن تو ہے مگر اس کے لیے انہیں اپنی چال بدلنا ہوگی۔ اپنے حلقہ ٔ احباب سے باہر بھی کچھ لوگوں سے رابطے کرنا ہوں گے۔ یہ ضروری ہے۔“ میں نے بات جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’خیری صاحب ایک جہاں دیدہ وکیل ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں خالد کو بھی اور اس کی چال کو بھی۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ۔۔۔اور اصل بات یہ ہے کہ خالد احمد سب سے زیادہ سمجھتا ہے خود کو اور اپنی چال کو۔۔وہ کبھی نہیں بدلے گا۔ بس یونہی دل لگی کررہا ہوگا مہمان سے۔۔۔سچ یہ ہے کہ ہم جانا چاہیں بھی تو بچپن کے یہ آشنا راستے اب ہمارے پاؤں نہ چھوڑیں گے۔ویسے بھی پاؤں اکھڑ جائیں تو مشکل ہی سنبھلتے ہیں۔ وہ جانتا ہے یہ:
زمیں پہ پاؤں ذرا احتیاط سے دھرنا
اکھڑ گئے تو قدم پھر کہاں سنبھلتے ہیں۔‘‘
نجیب پورے یقین سے بولے۔
میں نجیب احمد کے مصرعوں میں الفاظ کے دروبست اور ان کی موزونیت پر حیراں ہوتا تھا۔یہ سادگی،یہ گہرائی، یہ روانی گویاکوئی دریا اپنی موج میں آگیا ہو:
کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا
سمندر تک اچھلتا جارہا ہے
۔۔۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر گئی
لیکن نہ کھل سکا پسِدویوار کون ہے
’’میرا آپ سے شعری تعارف انہی اشعارنے کروایاتھا“۔ اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے میں بولا۔
نجیب احمد نے میری بات سنی ضرور مگر فوراً جواب نہ دےپائے کہ مسلم ٹاؤن کا اشارہ آگیا تھا اور وہ جھولتے جھالتے سست رو سکوٹر کو چوک سے پہلے روکنے کا ہدف پانا چاہتے تھے۔سکوٹر رک گیا تو انہوں نے سانس کھینچی اور بولے:
’’دیکھو، پاکستان میں دو ہی ہنر مندشاعر ہیں جن کا مصرعہ سازی میں جواب نہیں۔ کمال مصرعہ کہتے ہیں!‘‘
’’ کون ہیں وہ دو ہنر مندشاعر؟ کچھ مجھے بھی تومعلوم ہو۔‘‘
’’ ایک تو ہے احمد فراز۔ بھئی واہ، کیا مصرعہ کہتا ہے!۔۔۔ویسے تو پروین شاکر کی شاعری کے حسن میں بھی شک کی گنجائش نہیں تاہم اس حقیقیت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اس کی مقبولیت میں اس کی نسوانیت کا عمل دخل ضرور رہا اور اسے اس بات کا پورا ادراک تھا۔‘‘
اور دوسرہنر مند شاعرا؟“ میرا تجسس بڑھ گیا تھا۔”
’’دوسرے کا نام احمد فراز سے پوچھ لینا وہ بتا دے گا تمہیں۔۔۔ اب اپنا نام خود لیتے ہوئے اچھا لگتا ہوں میں کیا!؟“ وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے۔
میں بھی ہنس دیا مگر بات سنجیدہ تھی:
نہ کچھ کہتا نہ کچھ سنتا ہے کوئی
فقط پہلو بدلتا جارہا ہے
۔۔۔۔
عجب اک معجزہ اس دور میں دیکھا کہ پہلو سے
یدِ بیضا نکلنا تھا مگر کاسہ نکل آیا
۔۔۔۔۔
بشر بے موت مارے جارہے ہیں
مسیحائی کا چرچا ہورہا ہے
ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں
ہمارے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے
ا یسے پرتاثیر اشعار کے خالق کی بات کو سنجیدگی سے لینا بنتا ہے۔ایسا سیدھا اور سادہ اسلوب اور ایسا وسیع اور گہرا جہانِ معنی! مجھے یاد آیاوہ جو نجیب احمد اور خالد احمد کی مشترکہ پچاسویں سال گرہ پر صاحبِ صدارت احمد ندیم قاسمی نے اپنے خطبہ میں کہا تھاوہ کتنا سچ تھاکہ نجیب احمد لفظوں کے گورکھ دھندے میں پڑنے کے بجائے سیدھا سادہ شعر کہتا ہے اسی سبب وہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ہاں،انہوں نے یہ بھی توکہا تھا کہ خالد اور نجیب ان کی معنوی اولاد ہیں اور انہیں بہت عزیز ہیں۔
میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ نجیب احمد احمد فرازکی مصرعہ سازی کے معترف تھے تو یقیناً کوئی بات ہوگی کیونکہ نجیب شعر کی پرکھ میں بہت مشاق تھے ۔شعر کیا کم زورتو وہ ایک مصرعہ بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ طبعاً مہذب، شائستہ اورکم گو تھے مگر شعر پررائے دیتے ہوئے ایسی صاف گوئی سے کام لیتے کہ مجھے بد لحاظی کا گمان گزرتا۔ فنی معیار پر کسی طرح کاسمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ بات کرنے میں کھرے اوربے باک تھے۔میرے سامنے کی بات ہے ایک نوجوان شاعرسے، جس سے لاکھوں کا کاروباری معاہدہ ہونے جارہاتھا،صاف کہہ دیا کہ اس کی نظموں میں لاتعداد مصرعے غیرضروری ہیں جو اس کی کم زور شاعری پر دلالت کرتے ہیں۔ایسے موقع پر ایسی صاف گوئی کی نہ وہ نوجوان توقع کررہے تھا اور نہ میں۔
سیدھا سادہ شعر کہنا کارِ آساں نہیں۔ نجیب احمد قابلِ رشک ذخیرۂ الفاظ رکھنے کے باوصف شعر کو کبھی لفظی بوجھل پن کا شکار نہ ہونے دیتے۔ ورنہ ان پاس الفاظ کی کیا کمی تھی۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں ایک بارمیری ایک نعت کے مطلع کے مصرعہ ٔاولیٰ میں خالد احمد کو ایک لفظ جچا نہیں۔ میں نے کئی متبادل لفظ تجویزکیے مگر خالد احمد مطمئن نہ ہوئے۔ آخر بولے: ”اس شہر میں ’شہنشاہِ مترادفات‘ ہی اب تمہاری دستگیری کرسکتا ہے اور کوئی نہیں۔چلو، چلتے ہیں اس کے پاس۔“
احسان دانش، احمد ندیم قاسمی،یزدانی جالندھری، ذوقی مظفر نگری اور صوفی افضل فقیرسے لے کر شہزاد احمد، خالد احمد،سراج منیر اور خالد علیم تک ادب پر گہری نگاہ رکھنے والے سبھی تو میری نگاہ میں تھے۔ کہاں لے کر جائیں گے خالد صاحب مجھے؟ میں سوچتا رہا۔
اب خالد احمد مجھے ساتھ لئے واپڈا ہاؤس سے نکلے اور بیاض کے دفتر اور اپنے گھر سے ہوتے ہوئے واپس لکشمی چوک کے چائے خانہ پہونچے جہاں نجیب احمد بیٹھے تھے۔ خالد احمد نے مجھے کہا: ”نجیب کومطلع سناؤ“۔میں نے حکم کی تعمیل کی۔ خالد احمد نے نجیب سے کہا کہ مطلع کے مصرعۂ اولیٰ کے اس ایک لفظ کو بدلنا ہے کوئی مترادف بتاؤ۔ نجیب نے جھٹ سے درجن بھر مترادفات کہہ ڈالے۔ خالد احمد نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولے:
”کیوں؟ کیا غلط خطاب دیا ہے میں نے اسے؟ اب چن لو ان میں سے موزوں ترین لفظ۔‘‘
’’لاؤ اب ایک سگریٹ نکالو۔۔۔جلدی سے۔“ نجیب احمدمترادفات بتاتے ہی خالد احمد سے مطالبہ کرنے لگے۔ انہیں بظاہر ہماری بات کا پس منظر جاننے میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔
’’اوئے، کنجوس شیخا! کبھی اپنے پلّے سے بھی پی لیا کر سگریٹ۔“ خالد احمد کھلکھلاتے ہوئے اپنے دوست پر چوٹ کررہے تھے۔پھر نجیب کی طرف سگریٹ بڑھاتے اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولے: ”اسے بتاؤ حامدؔ کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے کس قدر مضر ہے۔ یہ زہر ہے نرا زہر۔ میری تو سنتا نہیں یہ احمق۔۔۔‘‘
’’لیکن ہم میں سے بڑا احمق کون ہوا وہ جومحض زہر پیتا ہے یا وہ جو نہ صرف پیتا ہے بلکہ اس پر پیسے بھی خرچ کرتا ہے؟۔
اس سے پہلے کہ خالداحمد جوابی حملہ کرتے نجیب نے آغا نثار کا ہاتھ پکڑا اور یہ کہہ کر چائے خانہ سے باہر بھاگے کہ وہ ایک ضروری کام کرکے ابھی آتے ہیں۔
وہاں موجود سبھی دوست اس ہرروز کی دوستانہ نوک جھونک سے لطف اٹھارہے تھے اور میں خوش تھا کہ آج ”شہنشاہِ مترادفات“ سے بھی تعارف ہوگیا۔
تب ویسپا کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ دن بھی خواب و خیال ہوجائیں گے۔ خالد احمد رخصت ہوجائیں گے اور ان سے محبت بھری لڑائیاں اورمطالبے کرتے نجیب اچانک تنہا ہو جائیں گےاور کہیں گے:
اڑ جائیں گے ہم بھی ورق خاک سے اک دن
رنگوں کے سوا کوئی لبادہ نہیں رکھتے
کبھی سوچا نہ تھا کہ خالد احمد کی وفات کے بعد نجیب احمد کی طویل نظم”ازل“ کی کمپوزنگ ہورہی ہوگی توعزیزشاعر دوست خالد علیم بتائیں گے کہ اپنے پیارے دوست کے جانے کے بعد نجیب احمد کے چہرے پراور ان کے مزاج میں عجب اداسی کا رنگ اتر آیاہے یا پھر یہ کہ نوید صادق سیّد آلِ احمدکے تاریخ ساز ادبی جریدہ ”کارواں“ کا نجیب نمبرشائع کریں گے اور پھرکینیڈا فون کرکے بتائیں گے کہ نجیب صاحب کو میرا مضمون بہت پسند آیا ہے اور یہ بھی کہ اب نجیب صاحب کی صحت اچھی نہیں رہتی۔ ہسپتال آنا جانا لگا رہتا ہے۔کس کے گمان میں رہا ہوگا کہ رضا صدیقی اپنے موقر ادبی چینل ”ادبستان“ پر نجیب احمد کاجو انٹرویو نشر کریں گے وہ اس فن کار کا آخری انٹرویو ثابت ہوگا۔ اس اہم اور تاریخی گفت گو کے ذریعےایک عہد کی ادبی تاریخ رقم ہوجائے گی۔
سوچیے تو تاریخ ایک مخصوص وقت میں زندگی اور حالات کی دستاویز ہی تو ہوتی ہے۔ وقت چلتا رہتا ہے۔ تاریخ میں ڈھلتا رہتا ہے۔ کبھی رکتا نہیں۔ کہیں ٹھہرتا نہیں۔
’’یہ رہا تمہارا پلاٹ۔۔۔کیسا ہے؟“ نجیب احمد کا سکوٹر رک گیا تھازمین کے ایک خالی ٹکڑے کے پاس اوروہ مفلر کو کانوں اور سر سے اتارتے ہوئے کہہ رہے تھے:
”بس اب تم ہاں کرو تو مستریوں اور مزدوروں کو بلا کر تعمیر کا کام شروع کروا دیتا ہوں۔ کیا کہتے ہو؟۔‘‘
’’میں سوچتا ہوں کہ اس تعمیری جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے فی الحال کرائے کے مکان ہی نہ گذر بسر کرتا رہوں!“ میں نے تذبذب آمیز لہجہ میں جواب دیاتھا۔
’’تمہاری مرضی! لیکن یقین کرو اپنے چھوٹے سے گھر کی چھت کے نیچے جو سکون کی نیند آتی ہے وہ کرائے کے وسیع مکان میں بھی نہیں آتی۔ تم خود محسوس کرو گے یہ۔ باقی جیسا تم کہو۔“ وہ نہایت دھیمے انداز میں رک رک کر کہہ رہے تھے جیسے اس جملے کے ساتھ وہ زندگی کی حقائق کا سفر بھی کررہے ہوں۔
اور پھر اس واقعہ کے کچھ روز بعد ہی وہ میری موجودگی میں مستریوں اور مزدوروں کو ہدایات جاری کر رہے تھے:
’’اوئے، مسالے یا چُنائی چہ ذرا وی گڑبڑ کیتی تے فیر ویکھ لینا۔تہاڈی خیر نئیں۔ یاد رکھو اسیں کوئی مکان نئیں بنا رئے گھر بنا رئے آں گھر۔ اوئے کجھ سمجھ آئی جے کہ نئیں۔‘‘
اور ہاتھوں میں بجری اور سیمنٹ کے ملغوبے سے بھری بالٹی اٹھائے بے چارہ مزدورحیراں حیراں آنکھوں سے نجیب احمد کو تکتاہوا آگے بڑھ گیاتھا۔
اپنے پہلے گھر کی تعمیرکی یادوں سے پھوٹتی ان سطور کو ورق پر اتارتے ہوئے میرا دل اس یقین سے روشن ہے کہ”ازل“ کا خالق اور احباب کے سکون کا خیال رکھنے والا نجیب احمد اپنے ممدوحِ مکرم احمد مرسل ﷺ کے طفیل اپنے ابدی گھر میں پُرسکون اور آسودہ ہوگا۔ ان شااللہ تعالیٰ
اللہ کی کی حمد اور اس کے محبوب پیغمبر ﷺ کی ثنا کے نورآثاردریچوں سے آشنائی رکھنے والے کی ذات اور فکر کب مجسم روشنی میں ڈھل جائے،کون کہہ سکتا ہے۔یہ اللہ کے کام ہیں اور اس کے حکم سے سب کچھ ممکن ہے۔صدا بھی اسی کی ہے اور خامشی بھی۔ روشنی کا مالک بھی وہی ہے اور خاک کا بھی۔اسی دائم و باقی نے اپنے مقربین کے ذریعے انسان کو یہ آگاہی بھی بخشی کہ صرف اور صرف باقی کی محبت ہی فنا کے خوف سے آزادی کی ضامن ہو سکتی ہے ۔ مکتوباتِ ربانی میں آتا ہےکہ خاک ہی وہ عنصر ہے جو روشنی کو جذب کرکے بھی اپنی حقیقت پر قائم رہنے کی خاصیت رکھتاہے۔ اسی لیے خاکی فن کار مرکر بھی نہیں مرتا۔نجیب احمد کی یادوں کی خنک روشنی بھی ان کی محبت کی طرح پائدار ہے۔ان کی فکرہمارے ذہن ودل کی سرزمیں پرہمیشہ یونہی مہکتی اور چمکتی رہے گی کیونکہ روشن ہستیوں کے نوری تذکار سے روشنی کشید کرتی ہوئی وہ خود بھی روشنی میں ڈھل چکی ہے اور نجیب احمد ہمیں بتا گئے ہیں کہ:
روشنی خاک میں تحلیل نہیں ہو سکتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔