میں اس کا مسئلہ تھی جسے حل نہیں کیا
اس نے مجھے کبھی بھی مکمل نہیں کیا
مانا کہ تھل مزاج رتوں کی امین ہوں
روتی رہی ہوں آنکھ کو تو تھل نہیں کیا
اسکو بھلانا تھا سو بھلا بھی دیا اُسے
جو کام آج کا تھا اسے کل نہیں کیا
روئی تمہارے شہر سے میں دور بیٹھ کر
میں نے تمہارے شہر کو جنگل نہیں کیا
جو ہاتھ تیرے جانے پہ میں نے ہِلایا تھا
موسم کی شدتوں نے اسے شل نہیں کیا
اُسکو خدایا میں نے ولی ہی سمجھ لیا
جس نے تری زمین کو مقتل نہیں کیا
میں ظلم کے خلاف کبھی چپ نہیں رہی
اونٹوں کی خالی پشت کو محمل نہیں کیا
اُس کو سہولتوں کی سواری نہیں ملی
جس نے سفر حیات کا پیدل نہیں کیا