١۔
صبح کی شان و شوکت کا مدّ ِ مقابل بھلا کون ہے
اک جوانی کا تازہ لہو ہے
جو افلاک تک بہتا ہے
میری نبیوں کی پیشانی میں
یہ زمیں اک پرندوں کی نامختتم ڈار ہے
جو کہ ہر رُت میں آتی ہے
آتی ہے گاتی ہے
پر پھول لاتی نہیں ہے
مرے واسطے گرد لاتی ہے
اور آنکھوں میں بیٹھ جاتی ہے
جیون یونہی منتظر رہتے کٹتا ہے
اور کشتی پاتال میں ڈوب جاتی ہے
اک خواب کی طرح
جس کو پلٹ کر نہیں آنا ہے
٢۔
اس زمیں پر
میں لکھتا ہوں نظمیں
وہاں صرف دانش ہے
جو گرد بن بن کے اڑتی ہے
کرسی کی لکڑی سے،
سگرٹ کے ٹکڑوں سے
میں منتظر ہوں گذشتہ ملاقات کا
٣۔
میں الّو کی خاطر دعا مانگتا ہوں
خدا ٹھیک کر اس کو
پر اس کے ٹوٹے پڑے ہیں
میں اس موت کے آگے
اپنے لیے بھی دعا مانگتا ہوں
کہ مر جاٶں طاعون سے
اس سے آگے، نہیں جس کو کوٸی دعا یاد
لوباں جلاتا ہوں
جل جاٸیں اس میں دوات اور قلم اور سیاہی
٤۔
بیروت آیا نہیں مرے رستے میں
بیروت مہکا نہیں میرے میداں میں
بیروت پھیلا نہیں صبح کے وقت
بیروت میں پار کرتا ہوں
لیکن وہ دکھتا نہیں ہے
میں بیروت میں رہتا ہوں
مجھ کو بیروت دکھتا نہیں
جیسے میں اور بیروت
دونوں دنوں کی چمک میں فنا ہونے والے ہیں!!
younus khayyal
اگست 9, 2020ترجمہ اور وہ بھی شعری اصناف کا ۔۔۔۔ ایک مشکل ادبی کام ہے ۔ جناب اقتدارجاوید کہ ہاں یہ کام سہل سا معلوم ہوتاپے اور ان کے تراجم پراصل تخلیق کاگمان ہوتاہے۔