ہمارا المیہ یہ ہے
ہم اک ایسے خطِ تقسیم پر محو سفر ہیں
جس کے اک جانب
گھنے برگد تھے
کچے راستے تھے
کچے گھر تھے
ہوا میں کچی کلیوں کی مہک تھی
دور تک پھیلی ہوئی سرسوں تھی
چرواہے تھے ریوڑ تھے
پرندوں کی حسیں ڈاریں تھیں
ڈیرے داریاں تھیں
ڈھولے ماہیے تھے
بہر سو زندگی تھی
زندگی کا ہر حوالہ تھا
مگر اس رہگزر کی دوسری جانب
مسلسل شور ہے
رفتار ہے
ہنگامہ خیزی ہے
عجب بے اطمینانی ہے
ہوا میلی ہے بد بو سے بھری ہے
دھوئیں کی ایک چادر ہے
جو زیر آسماں بے انت پھیلی ہے
یہاں کے موسموں میں بھی بلا کی شدتیں ہیں
زہر ناکی ہے
یہاں پر موت ارزاں ہے
ہر اک ذی روح لرزاں ہے
یہ منظر خوف کا منظر ہے
اس میں زندگی ناپید ہے
بس زندگی کی ایک مصنوعی سی صورت ہے
جسے سب اوڑھ کر
اندھے سفر پر گامزن ہیں
ہمارا المیہ یہ ہے
کہ ہم اس دوڑ میں آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں
نہ رکتے ہیں نہ ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں
ہمیں یہ خوف ہے کہ رک گئے تو کچلے جائیں گے
کہیں برگد نہیں
جس کی گھنی چھاؤں میں دم لے لیں
نہ کچے راستے ،نہ دور تک پھیلی ہوئی سرسوں
نہ چرواہے نہ ریوڑ ہیں
فقط بے اطمینانی ہے
کہ ہم سے زندگی روٹھی ہوئی ہے
younus khayyal
مئی 10, 2020یوسف خالد نظم کا بہت عمدہ تخلیقارہے ۔ وہ گزرے ’’ کل ‘‘ اور ’’ آج ‘‘ کے درمیان تپنتے پُل پرکھڑاان یادوں کوآوازیں دیتا دکھائی دیتاہے جہاں سکون ہی سکون تھا، چین ہی چین اورپھرلفظی تصویریں بناکرآنے والے ’’ کل ‘‘کی خوف ناکیوں سے پمیں آگاہ بھی کرتاہے ۔۔۔۔۔ کیا پُل پر کھڑاہوکراس نے خود آنے والے کل کی طرف جانے کا سفر وقتی طورپر روک رکھاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ پمارا المیہ یہ ہے ‘‘ دیکھئے ذرا !