بپا ہے ظلمتِ پیہم، چمن تاراج ہے ساقی
نہ تھا پہلے جو منظر شہرِ دل کا، آج ہے ساقی
جنوں سے عقل ہے دامن کشا، حسرت کا عالم ہے
خودی کے معرکوں میں بے خودی معراج ہے ساقی
نہ ہو انسانیت جس میں، اسے مذہب نہیں کہتے
کمالِ آدمیت دیں کے سر کا تاج ہے ساقی
محیطِ دو جہاں جس کے لیے اک لفظ ہے "کن”کا
خدا وہ ہے، خدائی جس کی سب محتاج ہے ساقی
نظرمیں پاوں ہیں،پاوں میں زنجیریں ہیں مٹی کی
تہہ خاکِ تمنا آسماں کی لاج ہے ساقی
فقیروں میں فقیری ڈھوندتی ہے فقرِ رومی کو
جسے پو چھو ،کوئی رازی ،کوئی حلاج ہے ساقی
غریقِ شورشِ دنیا مسلماں ہوگئے صائم
نہ بزمِ دل سے کام ان کو، نہ کوئی کاج ہے ساقی