شور سہم سہم کر
سڑک پہ بھاگ رہا ہے
کھمبوں کے بلبوں کی روشنی تک
پروانے سفر نہیں کر سکتے
تھک ہار کر کیاریوں میں
اُگی جواں گھاس کےقصے
سُنتے سُنتے
نیند میں کھو جاتے ہیں
فٹ پاتھ بھوک سے گھبرا کر
شب بھر بلکتا رہتا ہے
وحشت مہ نوشی کے بعد
قے کرتی راستوں پہ
بھٹکتی پھرتی ہے
بھوکے لاغرکُتے
کسی کو کاٹتے نہیں
کچھ بلیاں بچوں کی خوراک
حاصل کرتے کرتے
جاں گنوا دیتی ہیں
شب کے اس پہر میں
سناٹا آنسو بہاتا پھرتا ہے
دیکھ کر دکھ