اشہب وقت
ذرا دیر کو رک
مجھ کو یہ گیند تھما
میں اسے الٹا گھما کر دیکھوں
کیسے دریا میں ہوا غرق وہ لشکر جس کو
اپنا سردار
جہاں بھر کا خدا لگتا تھا
زعم کتنا تھا اسے مالکِ کل ہونے کا
کس قدر اس کو بھروسہ تھا
کہ اس کی قوت
کرہ ء، ارض پہ جو چاہے وہ کر سکتی ہے
کس طرح اس کا تکبر خس و خاشاک ہوا
کس خجالت سے گزر کر اسے احساس ہوا
ہے کوئی اور جو ہے قوت و ہیبت والا
ہے کسی اور کے قبضے میں نظامِ ہستی
ہے کوئی اور جو غالب بھی ہے قادر بھی ہے مختار بھی ہے
ہے وہی سارے جہاں کا خالق
ہائے اک جھوٹے کو تسلیم کی مہلت نہ ملی
بیچ دریا کے اسے موت نے لا چار کیا
عہدِ موجود کے بھی جھوٹے خدا سوچتے تھے
ہم بدل سکتے ہیں
اس کرہءِ ارضی کا نظام
ایک انہونی ہوئی
کھیل کی بازی پلٹی
بادِ صرصر کی طرح پھیل گیا خوفِ بلا
ہنستے بستے ہوئے شہروں میں
گلی کوچوں میں
موت کے عفریت نے پنجے گاڑے
ایک ان دیکھے عدو کے ہاتھوں
ہو گیا زیر و زبرعالی دماغی کا غرور
اشہب وقت ذرا دیر کو رک
اک نئے عہد کی بنیاد مجھے دیکھنے دے
یوسف خالد
younus khayyal
اپریل 14, 2020وااااااااااااااااااااااااااااااہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ