گھر کی حالت سے نہیں لگتا کہ گھر بولتا ہے
لوگ کہتے ہیں یہاں کوئی مگر بولتا ہے
ہو رہی ہیں کہیں شاہوں کی زبانیں لرزاں
اور کہیں نیزے پہ رکھا ہوا سر بولتا ہے
مجھ پہ خاموشی کا الزام لگانے والو
میں نہ بولوں تو مرا دستِ ہنر بولتا ہے
ان فصیلوں سے نہیں ہو گی حفاظت گھر کی
ان فصیلوں کی تو اینٹوں سے بھی ڈر بولتا ہے
اب کے بستی میں مسیحا نہیں آنے والا
اک پرندہ ہے جو یاں شام و سحر بولتا ہے
مجھ کو محمود سکھایا ہے مرے پرکھوں نے
بات میٹھی ہو تو لہجے کا اثر بولتا ہے