لیاقت علی عاصم
کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چھو گیا تو خیال تیری طرف گیا
کوئی آ کے جیسے چلا گیا، کوئی جا کے جیسے گیا نہیں
مجھے اپنا گھر کبھی گھر لگا تو خیال تیری طرف گیا
مری بے کلی تھی شگفتنی سو بہار مجھ سے لپٹ گئی
کہا وہم نے کہ یہ کون تھا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے کب کسی کی اُمنگ تھی،مری اپنے آپ سے جنگ تھی
ہُوا جب شکست کا سامنا تو خیال تیری طرف گیا
کسی حادثے کی خبر ہوئی تو فضا کی سانس اُکھڑ گئی
کوئی اتفاق سے بچ گیا تو خیال تیری طرف گیا
ترے ہجرمیں خورو خواب کا کئی دن سے ہے یہی سلسلہ
کوئی لقمہ ہاتھ سے گر پڑا تو خیال تیری طرف گیا
مرے اختیار کی شدّتیں مری دسترس سے نکل گئیں
کبھی تُو بھی سامنے آ گیا تو خیال تیری طرف گیا