کم ملے تو عطا کو روتے ہیں
پھر گنوا کے انا کو روتے ہیں
موت آنی ہے آ کے رہنی ہے
کس لیے ہم قضا کو روتے ہیں
سر پہ رکھ کر گناہوں کی گھٹڑی
کون ہیں جو دعا کو روتے ہیں
چھین کر دوسروں کی سب خوشیاں
اب وہ اپنی خطا کو روتے ہیں
خود فریبی عجیب نشہ ہے
بے وفا بھی وفا کو روتے ہیں
خود ہی پھیلا کے غم زمانے میں
کم نظر اب خدا کو روتے ہیں
آ سہولت سے ہم بچھڑ کر پھر
اپنی اپنی جفا کو روتے ہیں
رکھ کے دیوار پر دئیے اپنے
لوگ ناحق ہوا کو روتے ہیں
عشق ھے وہ گلاس پانی کا
پینے والے سدا کو روتے ہیں
غزل : غزالہ شاہین مغل
