نظم

مکالمہ : یوسف خالد


کہا میں نے
کہ جو تم سوچتے ہو
اور جو محسوس کرتے ہو
اسے لفظوں کی صورت کیوں
لب اظہار تک آنے نہیں دیتے ؟
کہا اس نے
کبھی دیکھا ہے تم نے
پھول کیسے بات کرتے ہیں ؟
کبھی شبنم کی بوندوں سے
کبھی رنگوں سے، خوشبو سے،
کبھی باد صبا سے بات کی ہے
کہا اس نے
کبھی چپ کی ردا کو اوڑھ کر دیکھو
تو تم بھی جان جاؤ گے
کہ گہری چپ کے عالم میں دلوں پر کیا گزرتی ہے؟
نگاہیں چار سو کیا ڈھونڈتی ہیں ؟
رتجگے کیا ہیں؟
کہا اس نے
یہ میری خامشی بھی تو
کئی مفہوم رکھتی ہے
کہا میں نے
کہ ہاں بالکل
مجھے اب کچھ نہیں کہنا
یہ سب الفاظ ،
سارے رنگ،
ساری خوشبوئیں لے لو
اور اپنی گہری چپ کا یہ اثاثہ
ان کے بدلے میں
مری جھولی میں ڈالو
میں کہ اک مدت سے اپنا خالی دامن لے کے پھرتا ہوں
مرے دامن کو بھر دو
گفتگو کو اک نئی صورت عطا کر دو
یوسف خالد

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی