سؔبیلہ انعام صدیقی
سنتے ہیں زمانے کی فَضا دنگ ہُوئی ہے
خوابوں سے حقیقت جو ہم آہنگ ہُوئی ہے
۔
تدبیر تھی منزل کی طرف تیز روانہ
تقدیر ! تری چال سے رَہ تنگ ہُوئی ہے
۔
خوش کُن تھا کبھی خِطّہءِ کشمیر کا منظر
بڑھتی ہُوئی ظلمت مِیں ہَوا سنگ ہُوئی ہے
۔
اُس لمس کا ہاتھوں پہ اَثر پاتے ہی چوڑی
تھی شوخ کلائی میں اور اب شنگ ہُوئی ہے
۔
گذرے ہُوۓ ایّام کا حاصل ہی یہی تھا
زنجیر تھی گفُتار پہ جو زنگ ہُوئی ہے
۔
کُھلتے ہیں خیالوں مِیں سَبھی بند دَریچے
جن سے مری تخلیق بھی نَیرنگ ہُوئی ہے
۔
ایسا نہیں بس تجُھ سے ہے تکرار سؔبیلہ
ایسا ہے کہ خود سے بھی مری جنگ ہُوئی ہے
سؔبیلہ انعام صدیقی