Poetry غزل

غزل

شاعر: شان الحق حقی

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے

ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے

دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب

زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے

ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق

کم نگاہی کے لیے عذر نہ چاہے جاتے

کاش اے ابرِ بہاری! ترے بہکے سے قدم

میری اُمید کے صحرا میں بھی گاہے جاتے

ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال

ہم بھی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے

لذتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے

ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے

ہے ترے فتنہ رفتار کا شہرہ کیا کیا

گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرِ راہے جاتے

دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی، ورنہ

اور کچھ دن غمِ ہستی سے نباہے جاتے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں