سیدہ ہماؔ شاہ
بچھڑنا تھا تو پھر کوئی طریقہ بھی تو رکھنا تھا.
دوبارہ لوٹ کر آنے کا رستہ بھی تو رکھنا تھا
اسے پانے کی خواہش میں دعائیں بھی تو کرنا تھیں
زباں پہ ہر گھڑی کوئی وظیفہ بھی تو رکھنا تھا
اسے دیکھے بنا تم نے محبت اس سے کر ڈالی
تصور میں کسی صورت کا نقشہ بھی تو رکھنا تھا
سفر صحرا کی جانب تھا ہوا سے جنگ جاری تھی
ہما شاہ زیرِ پا پھر کوئی زینہ بھی تو رکھنا تھا
سیدہ ہماؔ شاہ