سعید اشعرؔ
آنکھوں کا پانی
میرے جسم کی مٹی گھول رہا ہے
کوئی چپکے چپکے بول رہا ہے
میری ہجرت
میرے اندر سے
میرے اندر کی جانب
جانے کب تک جاری رہتی ہے
نیند کا پتھر
کتنا بھاری ہے
میری پلکوں پر رکھا ہے
سورج کب نکلے گا
پربت کا چہرہ دھندلا ہے
میں اک ایسے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوں
جس کے آدھے پتوں پر
پیلے رنگ کا سایا ہے
میری گردن میں
تیرے وعدوں کی مالا ہے
گدڑی سر کے نیچے رکھوں تو
تیتر بولنے کی آوازیں آتی ہیں
رستے کے ایک کنارے پر صحرا ہے
صحرا کی جھولی میں دریا ہے
پانی کے چھینٹوں سے
میرے پاؤں کے تلوے بھیگ رہے ہیں
"مرشد! میں نے اس کے نام پہ مرنا تھا
میرے سارے کام ادھورے ہیں”