یوسف خالد
کیسے سمجھاتے اسے کہ خواہشیں
صورتِ کچا گھڑا ہیں
ناقہء لیلیٰ ہیں
مجنوں کی قبا ہیں
جھنگ کا بیلا ہیں
گہری نیند ٹوٹے تیر ہیں
کیچ اور بھمبھور تک پھیلے ہوئے صحرا پہ قدموں کی نشاں ہیں
حاصل و لاحاصلی کے درمیاں
اک ادھورا خواب ہیں
اور زندگی
یہ خواب آنکھوں میں سجائے
شام کی پلکوں پہ لکھی
ایک ان دیکھے سفر کی کچھ کہی کچھ ان کہی
بھیگی ہوئی تحریر ہے
کیسے سمجھاتے اسے