زہرا شاہ
یہی نہیں کہ جدائی میں مار دیتا ہے
وہ زندگی بھی مجھے بے شمار دیتا ہے
اسے بھی پیاسا سمجھتے ہو حد نہیں ویسے
جو خالی آنکھ میں دریا اتار دیتا ہے
تم اب تو وقت بھی دیتے ہو اسطرح مجھ کو
کہ جیسے کوئی کسی کو ادھار دیتا ہے
یہ دینے والے کی گنتی کو مسئلہ کیا ہے
کسی کو ایک کسی کو ہزار دیتا ہے
جدا کرے تو جدائی میں کچھ نہیں بچتا
قریب ہو تو مقدر سنوار دیتا ہے
کسی خوشی پہ بھی مجھ کو یقیں نہیں آتا
یہ دل خوشی کو مصیبت قرار دیتا ہے