شاعر : جلیل عالی
کار، بازار، گھر، کلب مجہول
سوچیے تو یہ سب کا سب مجہول
ذکرِ رنج و تعب تمام عبث
خواہشِ موسمِ طرب مجہول
کوئی اصلاحِ حال کیسے ہو
جو بھی تدبیر ہے کڈھب، مجہول
شورِ دادِ سخن ’’غضب، کیا خوب‘‘
شوخیِ فن کہ زیرِ لب، ’’مجہول‘‘
یاں خموشی ہی راہِ انسب ہے
جانے کیا بول جائیں کب مجہول
اک ذرا سے بھی تم نہیں بدلے
اب بھی ہو جس طرح تھے تب مجہول
بات کچھ اور ہو رہی تھی مگر
بولنے تم لگے عجب مجہول
طنز کرتے ہوئے ذرا سوچو
کون ہوتا ہے بے سبب مجہول
بچ غبارِ غرورِ دانش سے
کہیں کر دے یہ سب نہ رب، مجہول
کام آتا ہے مشورہ دل کا
ہونے لگتی ہے سوچ جب مجہول
یہ تو قدرت ہی جانتی ہے میاں
کس کی ہے کون سی طلب مجہول
رات محفل میں بن پیے عالی
کر گیا گفتگو غضب مجہول