افسانہ نگار: واجدہ تبسم
چاند آسمان پر نہیں نیچے زمین پر جگمگا رہا تھا! نواب زین یار جنگ کے برسوں پہلے کسی شادی کی محفل میں ڈھولک پر گاتی ہوئی میراثنوں کے وہ بول یاد آ گئے:
کیسے پاگل یہ دنیا، کے لوگاں ماں۔
چھت پوکائے کو تو جاتے یہ لوگاں ماں۔
آنکھا کھلے رکھو تاکا جھانکی نکو۔
اپنے آنگن کو دیکھو ماں …. چند ا سجا کیسے پاگل
واقعی وہ پاگل ہی تو تھے۔ اب یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا تھا کہ اتنے زمانے سے اس حویلی میں رہ رہے تھے اور اب تک یہی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ چاند آسمان پر ہی نہیں زمین پر بھی چمک سکتا ہے۔
عید کی آمد آمد تھی…. کل بھی ساری حویلی کے لوگ چاند دیکھنے کے لئے چھت پر چڑھے تھے…. نواب صاحب کی کچھ تو عمر بھی ایسی تھی، کچھ عید کی خوشی بھی انہیں نہ ہوتی تھی کہ روزے نمازوں سے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے معافی لکھوا کے لائے تھے۔ عید کے چاند کی اصل خوشی تو ان روز داروں کو ہوتی ہے جو رمضان بھر کے پورے روزے رکھتے ہیں۔ وہ چھت پر جاتے بھی تو کیوں ؟ لیکن آج سب نے ہی ضد کی…. یہاں تک کہ حویلی کے مولوی صاحب نے بھی کہا، ’’مبارک مہینوں کی پہلی کا چاند دیکھنے سے بینائی بڑھتی ہے اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔‘‘ تو وہ برکتوں کے نزول سے زیادہ بینائی بڑھانے کے لالچ میں اوپر چلے آئے، کیوں کہ آج کل وہ واقعی آنکھوں کی کمزوری کا شکار ہو رہے تھے…. عمر تو یہی کوئی چالیس بیالیس کے قریب تھی، وہ منزل ابھی نہیں آئی تھی کہ ان پر ساٹھے پاٹھے کا اطلاق ہونے لگتا۔ لیکن جوانی کو وہ شروع جوانی سے ہی یوں دل کھول کر لٹاتے آرہے تھے کہ اکثر اعضاء کس بل کھو چکے تھے۔ وہ اپنے حسابوں وہ ابھی تک خود کو بڑھا دھاکڑ جوان سمجھتے تھے۔ لیکن خواب گاہ سے نکلنے والی طرار اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی ہوئی خواصیں دوپٹوں میں منہ چھپا چھپا کر ہنس ہنس کر ایک دوسری کو راتوں کی واردات سناتیں تو دبے چھپے الفاظ میں ان کی جوانی کا پول بھی کھول کر رکھ دیتیں۔
’’اجاڑ پتہ اچ نئیں چلا کی رات کدھر گزر گئی….‘‘
’’کیوں ؟‘‘ کوئی دوسری پوچھتی ’’اتے لاڈاں ہوئے کیا؟‘‘
’’لاڈاں ؟‘‘ وہ ہنس کر کہتی، ’’اگے جو جاکو سوئی تو بس سوتی اچ رہی…. اجاڑ دم ہی کیا ہے بول کے انوں میں۔‘‘
کوئی یوں ہی سر جھاڑ منہ پہاڑ گھومتی تو دوسری ٹھیلتی، ’’اگے غسل نئیں کری کیا میں ابھی حمام میں گئی تھی تو پانی گرم کا گرم ویساچ رکھے دا ہے۔‘‘
وہ الجھ کر بولتی، ’’باوا ہور بھایاں بن کے کوئی مرد سوئیں گا تو کائے کا غسل اور کائے کی پاکی؟‘‘
لیکن ان تمام باتوں سے نواب صاحب کی جوانی پر کوئی حرف نہیں آتا تھا۔ آخر حکیم صاحب کس مرض کی دوا تھے؟ اور پھر حکیم صاحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ ’’قبلہ آپ زیادہ سے زیادہ نوخیز چھریاں حاصل کرنا۔ ایسا کرے اچ تو اچ آپ کو زیادہ خوت ملتی ہور آپ زیادہ دناں جوان رہتے۔‘‘
لیکن اس وقت نواب صاحب کا چھت چاندنی پر جانا قطعی کسی بری نیت سے نہ تھا۔ وہ تو واقعی عید کا چاند دیکھنے کے لئے اوپر چڑھے تھے۔ چاند واند تو انہیں کیا نظر آتا، جس نے بھی جدھر انگلی اٹھا دی، ہوہو…. جی ہو…. جی ہو۔‘‘ کر کے ادھر ہی نظر جما دی۔ لیکن اچانک اپنی بلند بانگ حویلی کی آخری اور اونچی چھت پر سے ان کی نظر پھسلی اور نیچے کے غریبانہ ملگی (جھونپڑی) کے آنگن میں ٹھہر گئی…. آنکھیں کمزور تھیں ضرور، پہلی کا چاند یقیناً نہیں دیکھ سکتی تھیں ، لیکن چودھویں کا چمچماتا چاند سامنے ہو تو کمزور بینائی والی آنکھیں خود بھی جگمگانے لگتی ہیں۔
’’کیسے پاگل تھے ہمیں …. اتنے دناں ہو گئے ہور یہ بھی نئیں معلوم کرے کی ایں پڑوس کیسا ہے اپنا۔‘‘
دیوان جی سامنے ہی کھڑے ہاتھ مل رہے تھے۔
’’آپ تو کبھی ہم نا بولنا تھا کی پڑوس میں خیامت ہے۔‘‘
’’جی….جی….وہ….وہ سرکار میں نے کبھی غور نئیں کرا۔‘‘
’’آپ کو غور کرنے کی ضرورت بھی نئیں ، بس آپ کیسا تو بھی کر کے، وہ لڑکی حاضر کر دینا۔ فخط اتاچ کام ہے آپ کا۔‘‘
دیوان جی پلٹے تو انہوں نے پاس والی دراز کھولی اور کھن کھناتے کل دار حالی روپوں سے بھرا بٹوا اچھال کر دیوان جی کے پیروں میں پھینکا۔
’’ہم مفت میں کوئی چیز نہیں لیتے۔ وہ چھوکری اگر چوں چرا کری، یا ماں باپ اگر مگر کرے تو یہ روپے پکڑا دینا…. ان لوگاں زندگی پھر کھائیں گے تو بھی اتے روپے ختم نئیں ہوئیں گے۔‘‘
لیکن دوسرے ہی دن دیوان جی پھر اسی طرح کھڑے تھے۔ ہاتھ ملتے ہوئے خالی روپیوں کا توڑا انہوں نے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
’’سرکار….‘‘ ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، ’’انے….انے….‘‘
’’یہ انے انے کیا کر رے آپ؟‘‘ سرکار الجھ کر بولے، ’’جو بات ہے، صاف بولتے۔ ہوا کیا نئیں کچھ؟‘‘
’’سرکار وہ لوگاں بہوت ہی بہوت شریف لوگاں نکلے۔ بولنے لگے، روپے پیسے میں بیٹیاں کیسیا بیچتے۔ ہم شریف نمازی اللہ والے لوگاں ہیں۔ ہماری بیٹی کو ہم اللہ رسول کے بنائے خانون کے مطابخ عخد خوانی کر کے وداع کریں گے۔ ہور…. ہور…. سرکار اتا وزنی توڑا اٹھا کے انوں میرے مونہہ پو پھینک مارے۔‘‘
نواب صاحب دانت پیس کر بولے، ’’تو آپ انسان کی اولاد بولتا تھا نئیں کی ایسا ہے تو عخد میں دے دیو؟‘‘
دیوان جی لرز گئے…. نواب صاحب انتہائی غصے کی حالت میں ہی نہیں بجائے گالی دینے کے انسان کی اولاد کہا کرتے تھے جو ہزار گالیوں سے بدتر گالی تھی۔
’’بولا سرکار۔‘‘
’’پھر ان لوگاں کیا بولے؟‘‘
’’بولے…. بولے سرکار کی عمر بہت ہوتی، ہماری بچی کچی عمر کی ہے۔‘‘
اس وقت دیوان جی کے مونہہ سے ’’کچی عمر‘‘ سن کر نواب صاحب کے انگ انگ میں خون بول اٹھا۔ ذرا بھنا کر بولے، ’’ہم نا زیادہ عمر کے دکھتے جی؟‘‘
’’نئیں سرکار۔‘‘ دیوان جی چاپلوسی سے بولے، ’’ایسی بھی کیا عمر ہوئیں گی آپ کی۔ ایسے ایسے تو کتے پوٹپاں آپ….‘‘ پھر وہ ادب تہذیب کا خیال کر کے چپ ہو گئے، لیکن نواب صاحب کی باچھیں کھل گئیں ، وہ مسکرائے:
’’ووئی اچ تو ہم بھی کہہ رہے تھے….‘‘ اچانک وہ پھر سنجیدہ ہو گئے ’’مگر وہ چھوکری کیسا تو بھی ہم کو ملنا۔‘‘
’’آپ عخل والے ہیں ، سرکار آپ سوچو، ہم غریب کم عخل لوگاں …. آپ جیسا حکم دئے ویسا بجا لائے…. بس….‘‘
’’یہ پتہ چلاؤ آپ کی گھر میں کتے لوگاں ہیں ….‘‘
’’وہ میں چلا لیا سرکار….‘‘ دیوان جی جلدی سے بولے، ’’ماں ہے، بیمار باپ ہے…. چل پھر نئیں سکتی، سو دادی ہے۔ ہور تین چار چھوٹے چھوٹے بھایاں بہناں ہیں …. یہ اجالا اچ سب سے بڑی ہے۔‘‘
نواب صاحب کا ذہن جیسے روشن ہو گیا۔ اجالا…. اتا خوب صورت نام! بے تابی سے بولے، ’’جیسا مونہہ ویسا اچ نام۔‘‘
’’جی ہو سرکار، سچ مچ اجالا اچ ہے۔ ہندہارے (اندھیرے) میں بھی بیٹھے سو اجالا ہو جاتا….‘‘
’’آپ چپ اس کے تعریفاں نکو کرو جی‘‘ نواب صاحب جل کر بولے، ’’آپ اب یہ کرو کی ان لوگاں کو جاکو بولو کی نواب صاحب آس پاس کے پورے گلیاں توڑ کو پکا احاطہ بنوا رئیں۔ بول کو یہ جگہ کل شام تک اچ خالی کر دینا۔‘‘
دیوان جی خوش ہو کر بولے، ’’جی ہو سرکار! بہت اچھی بات سوچے آپ…. اتنا بڑا کنبہ لے کو ہکل کو کہاں جائیں گے بدبختاں …. جھکنا پڑے گا۔‘‘
عید کے دن روتے دھوتے میاں بیوی سرکار کے حضور میں پیش ہوئے۔
’’حضور…. سرکار…. آپ کے خدموں میں زندگی کٹ گئی۔ اب کدھر جانا؟ بڈھی ماں ہے، اٹھ کو اپنے آپ سے بیٹھ بھی نئیں سکتی۔ یہ مرد میرا کب سے دخ کا بیمار ہے۔ چھوٹے چھوٹے بال بچے۔ ایچ بولو سرکار۔ کاں جانا….‘‘ سکینہ بی رو رو کر کہنے لگی۔
’’ہمارے حویلی کے نوکر خانے میں بہوت جگہ ہے، یہاں آ جاتے۔‘‘ نواب صاحب نرمی سے بولے۔
اپنے بیمار شوہر پر نظر پڑتے ہی اس کا حوصلہ جواب دے گیا۔
’’احسان ہے سرکار کا…. سچی بولتی ساری رعیت کی حضور بڑی دیوال ہئیں۔‘‘
اور یہ حقیقت بھی تھی کہ نواب زین یار جنگ سے بڑا دل والا ان سے زیادہ سخی، ان سے زیادہ دیوال، کوئی نواب حیدر آباد نے پیدا نہیں کیا…. لینے سے انہیں سخت چڑ تھی۔ خود اپنے رشتہ داروں ، عزیزوں سے بھی زندگی میں کبھی ایک پائی کا تحفہ قبول نہیں کیا۔ سدا ہاتھ اٹھا ہوا ہی رہا تھا، لیکن صرف دینے کے لئے۔ دینے میں تو اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ ان کی ہاتھوں سے کتنی ہی قیمتی چیز کیوں نہ گر جاتی، کبھی جھک کر اٹھاتے بھی نہ تھے…. ملازموں سے اٹھواتے اور پھر ان ہی کو بخشش بھی دیتے۔
سوداگروں کا ایک خاندان حیدرآباد میں مدتوں راج کرتا رہا۔ اتنی دولت سوداگروں کے خاندان میں آئی کہاں سے؟ ہوا یہ تھا کہ ایک بار ان ہی نواب صاحب کے ہاتھوں سے بچپن میں سونے کی جگر مگر اشرفیوں سے بھری تھیلی چھوٹ کر زمین پر گری۔ سخاوت تو بچپن سے ہی گھول کر پلائی گئی تھی۔ جھکنا بھی کبھی نہ جانا تھا۔ ملازم کو بلایا اور اس نے تھیلی اٹھا کر دینا چاہی تو غصے سے بولے، ’’گرا ہوا مال ہم نا دیتا ہے نا مخول…. نکل جا ابھی حویلی سے، ہور یہ تھیلی بھی لیتا جا۔‘‘
تھیلی کے ساتھ جیسے اس کی خوش بختی بھی لگی تھی…. بعد میں کہتے ہیں اس نے کوئی کاروبار کیا اور خود بھی بڑے بڑے نوابوں کی طرح رہا جیا…. سوچو بچپن سے ایسا تھا، بڑا ہو کر کیا نہ بنتا کہ بچپن کی عادتیں ہی بڑے ہو کر پختہ اور راسخ بنتی ہیں۔
حویلی کا نوکر خانہ محض نام کا ہی نوکر خانہ تھا۔ اچھے اچھوں سے اعلیٰ رہائش مصیبت کے ماروں کو نصیب ہو گئی۔ دل میں ایک وسوسہ ضرور تھا کہ اللہ جانے اس عنایت اور بخشش کا نواب صاحب کیا مول مانگیں …. مگر نواب صاحب بھلا کیا مانگتے وہ تو صرف دینے کے قائل تھے۔
احسانوں سے چور سکینہ بی کا بس نہ چلتا کہ اپنی جان کو نواب صاحب پر سے صدقے کر کے پھینک دیتی…. کسی نہ کسی طرح کہ کچھ تو سرکار کے کام آ سکوں۔ چھوٹے بچوں بچی کو اور کچھ نہیں تو پاؤں دبانے کو ہی سرکار کے کمرے میں بھیج دیتی۔
سرکار ایک دن مسکرا کر بولے، ’’اتنے اتنے بچے کیا پاؤں دبائیں گے، ایساچ ہے تو بڑی کو بھیج دیا کر….‘‘
سکینہ بی نے ہول کر انہیں دیکھا…. یاد آ گیا کہ ان ہی سرکار نے تو بیٹی کو خریدنے کے لئے توڑا بھر مالی روپے بھجوائے تھے…. جب روپیوں سے بیٹی نہیں بیچی تو اب…. اب خالی کمرے میں ، بند دروازوں کے پیچھے یوں ہی اکیلے بیٹی کو کیسے بھیجے؟
سرکار نے اس کے چہرے پر لکھے ہوئے خیالات ایک ہی نظر میں پڑھ ڈالے۔
’’ہم نامعلوم ہے تو کیا سوچ رئی۔ پر یہ بھی سوچ، ہم چاہتے تو کیا تیری بیٹی پر زور زبردستی کر کے اس کو اٹھوا کے نہیں منگا سکتے تھے! ہم کو روکنے والا کوئی ہے کیا؟‘‘
’’سرکار، آپ شادی اچ کر لیو….‘‘ مجبور سکینہ بی رو دینے والے لہجے میں بولی، ’’جوان بیٹی کی عزت کانچ کا برتن ہوتی…. ذرا دھکا لگی کی ٹوٹی۔‘‘
’’شادی؟‘‘ نواب صاحب کچھ غصے اور کچھ اچنبے سے بولے، ’’شادی کا مطلب ہوتا ہے پوری زندگی بھر کی ذمہ داری…. پھر وارثاں پیدا ہو گئے تو جائیداد کے جھگڑے الگ اٹھتے، تو پاگل ہے کیا؟‘‘
سکینہ ڈرتے ڈرتے بولی ’’پن سرکار وہ جب آپ کے شیروانی ہور اونچی ٹوپی والے نوکر آئے تھے تو انوں تو بولے تھے کہ آپ…. وہ مصلحتاً چپ رہ گئی۔‘‘
نواب صاحب سچائی سے بولے، ’’ہم بولے تھے ضرور، مگر ہمارا مطلب وہ نئیں تھا ہم تو متعہ کرنے کا سوچے تھے۔‘‘
’’مت….مت….متعہ؟‘‘ سکینہ ہکلا ہکلا کر بولی، وہ کیا ہوتا سرکار۔‘‘
سرکار نے صاف صاف کہہ دیا، ’’ابھی جب ہم دو ہفتے کے واسطے جاگیر پو گئے تھے کی نئیں تو بغیر عورت کے کیسا رہنا…. بول کے ہم شادی کر لئے وہاں ایک چھوکری سے۔ پھر واپس آنے لگے تو طلاخ دے کو آ گئے۔ مطلب یہ کہ تھوڑے دنوں کی شادی…. تو ڈر مت، مگر…. ہم طلاخ دیں گے تو مہر کے نام پو اتا پیسہ وی دیں گے کی تیری دو پشتیں چین سے کھا لینا۔ اتار دیں گے…. بس ہمارے جی بھرنے پر ہے کہ ہم کب طلاخ دیتے۔ پر اتا ہور سن لے، ایسے ایسے تو کئی متعہ ہم کرے، پر جہاں کسی نیچ کمینی ذات سے وارث پیدا ہونے کے امکان ہم نا نظر آئے ہم اپنے حکیم جی سے کوئی بھی گرم دوا کھلا دیتے کی گندے خون کا وارث ہم نا نئیں ہوتا۔‘‘
’’یہ سب حرام ہے سرکار…. یہ کام حرام ہے۔‘‘ سکینہ کا رواں رواں چلا رہا تھا مگر سکینہ میں ، جی ہو، یا جی نئیں ، کہنے کی سکت ہوتی تب نا…. وہ تو ہونقوں کی طرح بس مونہہ کھولے بیٹھی کی بیٹھی تھی اور نواب صاحب فتوے پر فتویٰ صادر کئے جا رہے تھے، ’’ہم عخد خوانی کر کے باخائدہ بیاہتا بی بی تو بس ایک ہی رکھے ہیں ، جو بڑی پاشا کے نام سے مشہور ہیں …. ویسے ہم نے دینا ہی دینا سیکھا ہیں بس…. اس واسطے اب یہ جتی ہی غریب غربا پوٹیاں ، خواصاں ہمارے ساتھ رہتے ہم سب کو باری باری متعہ کرتے رہے ہو طلاخ دیتے رہتے…. آخر غریبوں کا پیٹ تو پلنا ہی چاہئے نا۔ ہم نئیں دیں گی تو ان لوگاں کا کیا ہوئیں گا؟‘‘
یہ تو اس جھٹ پٹے کی بات تھی جس میں نواب صاحب نے چھت کی اونچائی پر سے ملگجے اندھیرے میں دور نیچے چاند چمکتا دیکھا تھا۔ وہ دوری اور یہ قربت!
آج انہیں یہ پتہ چلا کہ اجالا کیا چیز تھی۔ اونہہ بال تو ان کم بخت غریب حیدر آباد کی عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جی کھول کر دیئے تھے، اس کی کوئی بات نہیں۔ لیکن رنگ؟ کیا رنگ تھا! چاندی کو گھول کر جیسے اس کے جسم میں ، رگ رگ میں دوڑایا گیا تھا۔ پھر آنکھیں تھیں ، شراب و راب سب بے کار چیز ہے۔ یہ آنکھیں تو صرف اس لئے بنی تھیں کہ جن پر اٹھیں انہیں ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیں۔ قد و قامت تو جو تھا وہ سامنے ہی تھا…. عربی شاعری میں عورت کے حسن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ عورت کے برہنہ جسم پر اگر ایک چادر سر پر سے ڈال دی جائے تو وہ چادر صرف دو جگہ سے جسم کو مس کرے…. ایک سینے پر سے دوسرے کولہوں پر سے…. باقی چادر یوں ہی جسم کے لمس کو ترستی رہے۔ اجالا ایسے ہی جسم کی مالک تھی جو چادروں کو ترساتا ہے…. دو صبیح رخساروں سے سجے ہوئے وہ قاتل ہونٹ، جو اجالا کا سب سے بڑا سرمایہ تھے۔ وہ ہونٹ جو ایک ایسی چپ چاپ کٹیلی کٹیلی اور ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ سے مہکے اور دہکے ہوئے تھے کہ نواب صاحب اپنے آپ کو بچا ہی نہ سکے۔
سب سے زیادہ حیرت تو نواب صاحب کو اس بات پر تھی کہ انہیں حکیم صاحب کی مطلق بھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ جو بجائے خود ہیروں ، موتیوں ، سونے چاندی اور جواہرات کی کشیدہ تھی، اس کے ہوتے ہوئے کسی معجون کی کیا ضرورت تھی۔
کیسے کیسے لمحے اس نواب صاحب کو عطا کئے کہ اپنی ساری پچھلی زندگی انہیں بے کار، بے رس اور برباد نظر آنے لگی۔ اس کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک دن انہیں جنت میں گزارا ہوا معلوم ہوتا…. یہ سب تو تھا، لیکن اجالا نے کبھی ان سے بات نہیں کی…. ہر چند کہ وہ اس کی کمی محسوس بھی نہیں کرتے تھے، لیکن پھر بھی دل چاہتا ضرور تھا کہ یہ دو آتشہ شراب، یہ قیامت، یہ فتنہ کچھ جادو اپنے دہن لب سے بھی جگائے۔ کسی بھی بات پر بس وہ ہلکی سی چبھتی ہوئی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا لیتی۔ بس گردن کی ایک ہلکی سی جنبش اس کی ہر بات کا جواب دے دیتی۔
’’تمے ہمارے ساتھ خوش ہے نا، اجالا؟‘‘
جواب میں وہ طنزیہ، ہلکی سی، قاتل سی مسکراہٹ اور بس!
’’تمہارا کوئی چیز پوجی چاہتا؟ ویسے تو ہم اچ تم کو سب دے ڈالے۔ پھر بھی کچھ ہونا؟‘‘
گردن کی ایک جنبش سے وہ ’’نہیں ‘‘ کا اظہار کر دیتی۔
’’تم بات کیوں نہیں کرتے اجالا…. تمے اتنے خوبصورت ہے۔ تمہاری آواز بھی بہوت بی بہوت اچھی ہوئیں گی…. کبھی تو بولا چالا کرو۔‘‘
وہی مسکراہٹ، کچھ قاتل، کچھ بھولی، کچھ کٹیلی، کچھ طنز میں ڈوبی…. مگر ہلکی سی!
نواب صاحب کی محفلیں جمتیں تو اپنی مثال آپ ہوتیں …. ناچ گانے راگ رنگ، شباب و شراب کی محفلیں …. وہ بڑے دل والے تھے۔ ایسی محفلوں میں اگر ان کی متعہ کی ہوئی کوئی کنیز کسی دوست نواب کو جی جان سے پسند آ جاتی تو وہ اسے جھٹ طلاق دے کر دوست کو تحفے میں دے دیتے۔ یہ ان کی سخی اور دل والے ہونے کی چھوٹی سی مثال تھی…. خود ان کے نواب دوستوں میں بھی یہی چلتا تھا، لیکن خود نواب زین یار جنگ نے کبھی کسی کا ایسا تحفہ قبول نہیں کیا کہ وہ بنے ہی اس لئے تھے کہ لوگوں کو دیا کریں …. لینے کا سوال ان کے یہاں اٹھتا ہی نہ تھا۔
اس رات ایسی ہی ایک ہوش و حواس گم کر دینے والی محفل سجی ہوئی تھی…. گرما گرم کبابوں کے طشت آرہے تھے…. سنہری، نقرئی، بلوریں جاموں میں ، جن کے قبضے اور بٹھاوے سونے اور چاندی کے بنے ہوئے تھے، شراب پیش کی جا رہی تھی کہ نواب صاحب کے خاص حکم پر سرخ زرتار لباس میں ملبوس اجالا، سرخ شراب کا چھلکتا ہوا بلوریں جام بن کر محفل میں داخل ہوئی…. جس نے دیکھا، دیکھتا ہی رہ گیا۔ اوپر کی سانس اوپر…. نیچے کی نیچے۔
نواب صاحب فخر سے سب کو دیکھ رہے تھے…. وہ اس وقت دگنے نشے میں تھے۔ ایک شراب کا نشہ اور ایک ایسی بے مثال حسینہ کے احساس ملکیت کا نشہ تھا، جس کا کوئی ثانی ہی نہ تھا…. وہ فخر سے ایک ایک کو دیکھ رہے تھے، جواب میں دھیرے دھیرے ہوش میں آرہے تھے۔
’’اس کو بولتے جمال۔‘‘ کوئی دل تھام کر بولے:
’’ہور اس کو بولتے چال۔‘‘
’’جنت کے حوروں کا ذکر بہوت سنے۔ آج دنیا میں اچ دیکھ لئے۔‘‘
’’اب نواب صاحب کو دوزخ بھی ملی تو کیا غم۔ وہ تو یہیں اچ جنت کے مزے دیکھ ڈالے۔ لے ڈالے۔‘‘
’’مگر، خصت، آپ یہ لا خیمت ہیرا کتے میں خریدے؟‘‘
نواب صاحب نے فخر سے سب کو دیکھا۔ جانے وہ کیا کہنے والے تھے کہ زندگی میں پہلی بار…. ان کے ساتھ گزاری ہوئی زندگی میں پہلی بار اجالا کی بانسری کی طرح بج اٹھنے والی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی…. جو سوال پوچھنے والے نواب صاحب سے مخاطب ہو کر طنزیہ لہجے میں کہہ رہی تھی:
’’آپ لوگوں تو بس یہی جانتے کہ نواب زین یار جنگ بہوت بڑے نواب ہئیں …. بہوت بڑے دل والے، بہوت سخی دیوال۔ بس دیتے رہتے مگر لیتے نئیں …. مگر اس حیدرآباد کی، ایک چھوٹے سے غریب گھرانے کی یہ غریب بچی بھی کچھ کم سخی نئیں ہے…. میں آپ لوگوں کو بتاؤں۔ زندگی بھر کسی سے کچھ نئیں لینے والا میرے سے بھیک لیا سو میں اپنے حسن کی زکوٰة نکال تو بھکاریوں اور فخیروں کی خطار میں سب سے آگے جو فخیر جھولی پھیلائے کھڑا تھا وہ یہی اچ آپ کے نواب زین یار جنگ تھے…. میں تو سنی تھی کہ انوں ایسے دل والے ہئیں کی کسی کا کوئی تحفہ تک نہیں لیتے، بس دیتے اچ رہتے…. پھر میں پوچھتیوں کی انوں میری خوبصورتی کی ’’زکوٰة‘‘ کیسا خبول کر لئے؟ ان کی کیا اوخات تھی کہ میری کو خریدتے، میں خود انوں کو بھکاری بنا دی۔‘‘
وہ جو ہر لمحہ اس کی آواز کو سننے کو ترستے تھے، آج اسی کی آواز سن تو لی، لیکن جیسے کانوں میں ہر دھات پگھلا پگھلا کر ڈال دی گئی کہ پھر اس کے بعد کچھ نہ سن سکے…. شراب کا جام ان کے ہاتھ سے چھوٹ گرا اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی لہراتے ہوئے پھر کبھی نہ اٹھنے کے لئے زمین پر آرہے۔ ٭٭