Poetry نظم

بارش برستی ہے

        شاعر:اقتدار جاوید

دریا کنارے پہ
پھولوں کی بستی ہے
پھولوں کی بستی پہ
بارش برستی ہے
دن سرمئی ہونے لگتا ہے
نیلے افق والی
نیلا افق
گھیر لیتی ہے
جب اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے
اک آگ جلتی ہے
آنگن میں
لیموں کے پودے کی شاخیں
ہلاتی ہے
وہ کیسی طاقت کا منبع ہے
کیسی وہ جادوئی ہستی ہے
لیموں کی پودے پہ
بارش برستی ہے

بارش میں گاتی ہے
چھینٹے اڑاتی ہے
دفتر پہنچتی ہے
سردی کی صبحوں میں
کافی بناتی ہے
کافی بناتے ہوئے
تھوڑا ہنستی ہے
شیشے کے کیبن پہ
بارش برستی ہے
جب
رات ہوتی ہے
لفظوں کے جھرمٹ میں
نظموں کی شکلیں
بناتی ہے
نیندوں کی نرمی میں سپنے جگاتی ہے
سپنوں میں
جنگل اگاتی ہے
جنگل میں
گہرا اندھیرا ہے
موروں کی مستی ہے
موروں پہ بارش برستی ہے
نیلے افق والی
واپس پلٹتی ہے
بارش کی رسیا پہ
چمکیلے رستوں پہ
چمکیلی اشیاء پہ
تادیر بارش برستی ہے !!

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی