ہم ان بے شمار لوگوں کو بھولتے جارہے ہیں جنہوں نے ہمارے علم اور شعور میں گراں قدر اضافہ کیا.
متنوع موضوعات پر ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھنے والے ممتاز ادیب، محقق، مترجم اورصحافی ستار طاہر بھی ان میں سے ایک ہیں.
ایک دوست نے ان کا ذکر کیا تو یاد آیا کہ یار عزیز اظہر جاوید کے ڈیرے پر ان سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں. ہم دونوں کم گو تھے، سو تعلق دوستی کی حد تک تو نہ پہنچا لیکن نیاز مندی رہی.
ستار طاہر یکم مئی 1940 کو ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے. خاندان لائل پور منتقل ہوگیا تو بی اے تک تعلیم وہیں سے حاصل کی . 1959 میں صحافت کا آغاز کیا. ابن فتح، س ط اور ابو عدیل جیسے مختلف قلمی ناموں سے بھی لکھا. ماہنامہ کتاب، ماہنامہ معلومات، ویمن ڈائجسٹ، ہفت روزہ ممتاز، سیارہ ڈائجسٹ، حکایت، اردو ڈائجسٹ، سپوتنک، قافلہ اور قومی ڈائجسٹ میں ادارتی ذمہ داریاں انجام دیں.سیاسیات، ادب، فنون لطیفہ، عمرانیات، فلم غرض ہر موضوع پر لکھا.کئی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں جن میں وعدے کی زنجیر، انسان اور گدھا اور میرا نام ہے محبت شامل ہیں۔
ستار طاہر کی کتابوں کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہے. جن میں 75 طبع زاد، 120 تراجم اور 100 کے قریب بچوں کیلئے ہیں. قلم کی یہ مزدوری 1993 میں عید الفطر کے دن تک جاری رہی، جب آخری سانس لیے. اس دن مارچ کی 25 تاریخ تھی.
ستار طاہر جمہوریت پر پختہ ایمان رکھتے تھے.ضیاع الحق کے دور آمریت کے عروج کے زمانے میں جو کچھ انہوں نے لکھا اور سید قاسم محمود نے چھاپا، اس کی بہت کم لوگوں کو ہمت ہوئی. اس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔
ستار طاہر اعلی ‘ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کسی معمولی کام میں بھی عار نہیں سمجھتے تھے. ایک زمانے میں خطوط اور عرضیاں لکھنے کا کام بھی کرتے رہے. لیکن سب سے زیادہ خرچ کتابوں کے حصول پر کرتے تھے.
کچھ بزرگوں سے سنا کہ وہ جس کتاب کو بالکل نئی آئی ہوئی سمجھتے ، پتہ چلتا کہ ستار طاہر نے پہلے ہی پڑھی ہوئی ہے.
پیسے ہوتے تو ستار طاہر فراخ دلی سے خرچ کرتے لیکن زیادہ خوش حالی زندگی میں کم ہی آئی. زندگی کی گاڑی کو چلائے رکھنے میں تدریس سے وابستہ ان کی اہلیہ کا بڑا ہاتھ ہے. ستار طاہر اس کا اعتراف کرتے تھے. ان کے رخصت ہوجانے کے بعد بچوں کی تعلیم کی ذمہ داریاں بھی اس نیک خاتون نے خوش اسلوبی سے نبھائیں. ان کے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے میڈیا سے منسلک ہونے کا سنا ہے.
ستار طاہر کو بعد از وفات صدر پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے جمہوریت ایوارڈ دیا. بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے بچوں کے ادب میں کنٹریبیوشن کے اعتراف میں نشان اعزاز دیا.
ستار طاہر کی کچھ اہم کتابیں یہ ہیں:
مارشل لا کا وائٹ پیپر
اپنا قائد اعظم ایک
سورج بکف، شب گزیدہ
ایک عالم ہے ثنا خواں( سیرت)
حیات سعید( حکیم محمد سعید کے سوانح)
زندہ بھٹو، مردہ بھٹو
تعزیت نامے
حلقہ دام خیال
صدام، بش اور عالم اسلام
تنویر نقوی، فن اور شخصیت
اندرا گاندھی کا قتل
عالم اسلام کا نیا فکری انقلاب
غریب کی جورو(افسانے)
پاکستان کا مستقبل
تحریک پاکستان
ضیا الحق ڈکٹیٹر اور آدمی
تراجم
دنیا کی سو عظیم کتابیں
ری پبلک
حسن زرگر
دوشہروں کی ایک کہانی
رومیو جولیٹ، میکبتھ
کبڑا عاشق
لو سٹوری
علی اور نینو
مجبور آوازیں
بے وطن
اگر مجھے قتل کیا گیا
آخری بیان
عدلیہ کی حکمرانی
جنگ اور امن
پھولوں کا جزیرہ
شہزادہ اور فقیر
احتساب کا جنون
روس اور ترقی پذیر ممالک
پاکستان کی خارجہ پالیسی
تشکیل جدید
بھٹو:مقدمہ اور سزا
آواز کا بدن
گلیور کی سیاحتیں
سرائے
بلبل نغمہ سرا
ممنوعہ علاقہ
تحریک پاکستان
عشق اور چھکا
تاراس بُلبا (گوگول )عذرا (ہینری رائیڈر ہیگرڈ )
عذرا کی واپسی
مونٹی کرسٹو کا نواب
الوداع مسٹر چپس
روبنسن کروسو صدام حسین
تقریر کا فن
مذہب، خدا اور انسان
زیرو ہاور
اپنی قوت ارادی بڑھائیے
آسانی سے دوست بنائیے
سیر پکا دل (پنجابی ناول)
ستار طاہر ” تخلیق” میں "فٹ نوٹس” کے عنوان سے ادبی اور علمی موضوعات پر مختصر شذرات لکھتے رہے. ان میں بڑے بڑوں کی کم علمی کا ذکر بھی ہوتا تھا اور ادبی چوریوں کا بھی. کاش کوئی انہیں جمع کرکے کتابی شکل میں چھاپ دے. اردو کے اساتذہ طلبا سے تھیسس بھی کراسکتے ہیں. تخلیق کی فائلیں عزیزم سونان اظہر جاوید کے پاس محفوظ ہوں گی. تراشے ستار طاہر کے گھر بھی شاید موجود ہوں.