اکیسویں صدی کا بیسواں سال، آج اُردو کے مہان اور دو دھاری مزاح نگار جناب سید ضمیر جعفری کو گزرے اکیس برس بیت گئے۔ چار سو سال قبل فرخ سیئر کی ستم ظریفی کا نشانہ بننے والے شہیدِ ظرافت جعفر زٹلی کے بعد یہ اُردو کے واحد مزاح نگار تھے کہ جن کا قلم نثری و شعری مزاح میں یکساں رواں تھا، ورنہ اکثر یہی صورتِ حال ہے کہ نثر شگفتہ ہے تو شعر سنجیدہ اور شاعری مزاحیہ ہے تو نثر نہایت گھمبیر۔ ابنِ انشا کی بابت تو مَیں نے لکھا بھی تھا کہ ایسا ظالم ہے ، نثر لکھنے پہ آتا ہے تو ہنسا ہنسا کے مار دیتا ہے اور شاعری کرنے پہ آتا ہے تو رُلا رُلا کے مار دیتا ہے لیکن ہمارے اُردو مزاح کے ضمیر کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ دونوں جگہ ہنساتا ہے اور خوب ہنساتا ہے۔ اعلیٰ ظرفی کا یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ اپنی ذات کو نشانہ بنایا ہے۔ وسیع الجثہ تھے لیکن اس پہ رنجیدہ یا پریشان ہونے کے بجائے، ہمیشہ لطف لیتے تھے۔ ایک بار یوسفی صاحب نے پوچھا کہ کبھی داڑھی رکھنے کا خیال نہیں آیا ؟ ہنس کر کہنے لگے: دشمنوں نے بارہا Suggestکیا، مگر مَیں پہلے ہی اوور ویٹ ہوں، میرے گھٹنے مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے!! پھر اس شعر میں تو اعتراف اور خود کو نشانہ بنانے کا کیا ہی عالم ہے: ؎ یہ بڑھاپا تو مجھ کو خدا نے دیا ہے موٹاپا مگر میرا خود ساختہ اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ ہر چیز کے ہوتے ہوئے بھی خوش نہیں ہوتے لیکن سید صاحب کی زندگی کا تو منشور ہی یہ تھا :
؎ وقت سے کہہ دو کہ آخر تک ضمیر جعفری
جب بھی دیکھا جائے گا چونچال دیکھا جائیگا
یکم جنوری ۱۹۱۶ء کو ضلع جہلم میں منگلا کے قریب واقع گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ فرماتے تھے کہ ڈیم کی تعمیر سے قبل منگلا کا سراغ ہمارے گاؤں کے حوالے سے ملتا تھا: کبھی درویشوں کی باری، کبھی سلطانوں کی۔ ۱۹۳۸ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز روزنامہ ’احسان‘ کی ملازمت سے کیا۔دوسری جنگِ عظیم میں کرنل مجید ملک، فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت کے ہمراہ فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے بھی وابستہ رہے۔ ۱۹۶۶ء میں فوج سے بطور میجر ریٹائر ہوئے۔ پچیس سے زائد کتب منظرِ عام پر آئیں، جن میں مافی الضمیر، ولایتی زعفران، ضمیریات، ضمیرِ ظرافت، شناخت پریڈ، بے کتابے، دست و داماں، گورخند، اُڑتے خاکے، کتابی چہرے اور سفرنامہ + خسرنامہ نمایاں ہیں۔ ضخیم شعری کلیات ’’نشاطِ تماشا‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اپنی سترھویں سالگرہ پر جو نظم لکھی، اس کا ایک شعر یوں تھا: ؎
راکھ میں اِک چنگاری تو سلگائے رکھ
بوڑھا ہونا مرنے سے تو بہتر ہے
پھر ذرا ان کی نظم ’’زندہ دل بوڑھا‘‘ میں اپنی بابت یہ تصویر کشی بھی ملاحظہ ہوجس میں سے زندہ دلی اور بشاشت چھلک چھلک پڑتی ہے:
ہم نے دیکھا ایسا بھی اِک بوڑھا ستر سال کا
کوئی میچ نہ چھوڑے ہاکی، کرکٹ اور فٹ بال کا
کندھے پر برساتی دیکھو چوڑی چکلی چھاتی دیکھو
کتنی رغبت سے کھاتا ہے نان، کباب، چپاتی دیکھو
رسیا ماش کی دال کا سر پر ہے مہران کی ٹوپی
جوتا ہے چکوال کا /چوغہ ہے چترال کا
ہم نے دیکھا ایسا بھی اِک بوڑھا ستر سال کا
ایک بڑے شاعر کے لیے ان کا کلام ہی سب سے بڑا ہدیہ، تبرک اور خراج ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کا کلام تو بے شمار اور تیکھے رنگوں سے عبارت ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ مسرت نذیر کو شہرت عطا کرنے والا ’‘لونگ گواچا‘‘ والا گیت بھی انہی کا لکھا ہوا تھا، لیکن فی الحال ان کی مزاحیہ شاعری سے چند نمونے:
شوق سے لختِ جگر، نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
مَیں بتاتا ہوں زوالِ اہلِ یورپ کا پلان
اہلِ یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
…………………………
جہاں کی تیز رفتای کو کچھ روکا تو ہے ہم نے
ہمیں جو آج کرنا ہے وہ اگلے سال کرتے ہیں
…………………………..
پِن کھلی، ٹائی کھلی، بکلس کھلے، کالر کھلا
کھلتے کھلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھلا
آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی، آٹھ دس کا سر کھلا
لو خطیبِ شہر کی تقریر کا جوہر کھلا
سچ ہے مشرق اور مغرب ایک ہو سکتے نہیں
اُس طرف بیوی کھلی ہے، اِس طرف شوہر کھلا
……………………………………………
انگریزی جو باہر میرے چھلکی پڑتی ہے
شاید میرے اندر ابھی انگریز بہت ہے
………………………………………………………
کھائے بغیر تو نہیں گزارا ہے کوئی دن
سوچے بغیر کتنے زمانے گزر گئے
دو اقتباسات ان کی نظموں سے دیکھیے:
وہ آنکھیں بحرِ اطلانتک کے نیلے پانیوں جیسی
بدن یونانیوں جیسا، نظر مصرانیوں جیسی
جوانی میں بکنگھم کی جواں ملکانیوں جیسی
طبیعت نا ملائم ، مستقل استانیوں جیسی
وہ خود منصف تھی، خود مجرم تھی، خود قانون تھی یارو!
مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو!
(مسز ولیم)
…………………………………..
سپیچوں میں گوٹے کناری کی باتیں
بہو کی کفایت شعاری کی باتیں
پڑوسن کی پرہیزگاری کی باتیں
غرض ہر بیاہی، کنواری کی باتیں
وہ لابی کے جھرمٹ گلابی گلابی
وہ عارض شہابی، وہ لب لعل نابی
دوپٹے حسابی، قمیضیں کتابی
وہ آپس کی باتیں شتابی شتابی
کوئی گھر میں طرزِ بیاں چھوڑ آئی
کوئی کار میں چابیاں چھوڑ آئی
(عورتوں کی اسمبلی)
……………
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، مَیں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، مَیں روزے سے ہوں
میرا روزہ اِک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، مَیں روزے سے ہوں
اے میری بیوی مِرے رستے سے کچھ کترا کے چل
اے مِرے بچو! ذرا ہشیار، مَیں روزے سے ہوں