کائنات کی وسعتوں،بھیدوں اورنا قابلِ تفہیم مظاہر پہ غور کریں توکچھ سمجھ میں آئے نہ آئے ،یہ با ت طے ہے کہ تغیر وتبدل حقیقی ہے اور اس سے فرار ناممکن ہے۔ تغیر و تبدل کی انتہا یہ ہے کہ جو لمحہ گزر گیا وہ کبھی لوٹانہیں،زمان ومکاں کا یہ ہیر پھیر، ازل سے جاری ہے اور تاابد جاری رہے گا۔تاہم کردار نئے چہروں کے ساتھ وقت کے سمندر میںجلوہ افروزہوتے رہتے ہیںجو تبدیلی کا منبع بھی ہے اورتغیرکا سبب بھی۔وہ لمحہ انسان کی زیست میں انتہائی دلکش اور دلپذیر ہوتا ہے جب اچانک زمان و مکاں کی حقیقتوں کے درمیان مسرت اور بہجت کی گھڑی رونما ہوتی ہے اور کوئی ایسی خواہش تکمیل کے مرحلے سے گزرتی ہے جس کا اُسے شدت سے انتظار ہوتا ہے۔وقت کے جامِ جمشید میں ماضی،حال اور مستقبل ایک نکتے پر مرکوز ہو جاتے ہیں اور کائنات کی سمفنی اپنے مستورمعنوں سے لبریز ا،نکشافات کے سلسلوں کا آغاز کردیتی ہے،انسان حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے اور کبھی واپس نہ ہونے کی آرزو سے مملو ،کئی اور دنیاؤں کے خواب دیکھتا ہے۔ایسی دنیائیں جن کا شاید تخیلی وجود تو ہولیکن حقیقی وجود مفقود ہو۔۔۔!
ڈاکٹر شبیر احمد قادری بھی وقت کی آبشار پہ مدھر تانیں اڑاتا،کہکشاؤں کو رقص کناں کیے،وقت کے دھارے پہ ساٹھ کے ہندسے کو چھوتا،سبک رفتاری سے وقت کے سمندر پہ تیرتا ،کسی کنارے پہ اپنی کشتی لنگر انداز کرنے میں سر گرداں ہے۔ وقت جو پلٹتا نہیں،زندگی اس کے انتظار میںاوندھے منہ ،ساحلِ سمندر پہ نیلے لباس میں ملبوس پڑی،اس کشتی کی منتظر ہے جس میں یہ شیریں سخن ،بغل میں ’کتب نما‘ تھامے اور تذکروں کی کتاب کا مسودہ لیے سالہا سال سے پھر رہا ہے مگر سمے ہے کہ گرفت میں نہیں آرہا اور مچھلی کے مانند ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔سبک رفتاری سے گزرتا سمے اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ گنبدِزیست میں واشگاف انداز میں دی گئی اذان ،تکمیل کے مرحلے سے گزرنے والی ہے۔بے مصرف مصروفیت کے ہاتھوں مضمحل ہوتے قویٰ اور نحیف اعصاب سمے کے بیت جانے کا احساس دلارہے ہیں۔وہ زمانے رفت و گزشت ہوئے جب جسم و جاں کو معطر کرنے والا شیریںدرد لطف و انبساط کا باعث بنتا تھا،اب وہی درد زہریلا اور نیلابن رہا ہے،کچھ ہے جو بدل گیا ہے۔۔۔یکلخت ذہن کے پردوں پر ماضی کے مزار نمودارہونے لگے ہیں،بے آواز فلم میں پھیکے رنگ بچ گئے ہیں،لذت صدا مفقود ہو گئی ہے،آنکھیں بے خواب ہو چکی ہیں ،حقیقت کو خواب اور خواب کو حقیقت میں بدلنے کے سارے جذبے ماند پڑ نے لگے ہیں،سمے بیت رہا ہے اور بیتے سمے لوٹنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔۔۔۔اچانک ذہن کے پردے پر زرعی تہذیب اوراس کی اقدار کے فرسودہ،پیش پا افتادہ اورپامال ہوجانے کا دکھ اور سائبر عہد کی جدید علامتیں ظہورپذیر ہونے کا خوف نمودار ہونے لگا ہے۔خوف ہے کہ بڑھتا جا رہاہے، بڑھتا جا رہا ہے ،نئی نسل خوش ہے اور ہماری نسل ہے کہ زمانے سے ہمہ وقت بیزار اورگلہ گزار۔۔۔۔۔۔
بائیس جولائی دوہزاربیس ڈاکٹر صاحب کی ملازمت سے سبکدوشی کا دن ہے ،یہ اُن کی عمررسیدگی کے سمے کا اعلان نہیں،وہ اب بھی تاب و تواں ہے ،اور رخشِ خامہ پہ سوارشعور کی منزلیں طے کرنے میں محوِسفرہے۔سچ پوچھیں توزیست کی ساٹھ بہاریں گزارنے والا یہ درویش صفت انسان میرے دل ودماغ پر وحی کے مانند اترا ہے۔میرے لیے دھند اور خوف کے سایوں سے پرے امید کی روشنی اور علم و عرفان کی لوبن کر چمکا ہے ،جہالت وظلمت کے آسمانوں کے درمیاںرجائیت اوردانش وبینش کا سورج بن کرطلوع ہوا ہے ،میرے رائیگاں جانے کے دکھ ،ہر نئے سمے میں گزشتہ سمے کے دکھ اور آیندہ سمے پر گرفت مضبوط کرنے کے ہنر کو معرض تفہیم میں لانے کا فن، سکھانے اور سمجھانے والا انسان ثابت ہوا ہے۔دانش میں گندھی ،لفظی زیرو بم میں گھلی،شیریں اور لطیف گفتگوکرنے والا انسان جس نے میرے ہونے کی بے ترتیبی کو ترتیب دینے کا احساس دلایاہے۔وہ ہمیشہ میرے لیے استاد کی حیثیت سے سردیوں کی دھوپ اور گرمیوںکی چھاؤں کے مانند مہربان رہا ہے۔ خود پر دھوپ برداشت کرکے دوسروں کو چھاؤں دینے والے درخت کی طرح ڈاکٹر صاحب نے زندگی گزاری ہے ۔
زندگیوں کے تلخ ایام کو صبر اور تحمل سے برداشت کرنے کا ہنر میں نے ان سے سیکھا ہے۔قوتِ برداشت جو اب روز و شب کے ہیر پھیر میں نایاب ہوتی جارہی ہے،نیک دل اور لطیف روحیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں،روشن دماغ اور علم و عرفان سے لب ریز دل وقت کی گپھا میں کہیں گم ہوتے جا رہے ہیں ، ایسے کل جُگ میں ان کی شخصیت نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔منافقتوں اورپل پل تغیرپذیر ہوتے دور میںانھوں نے زندگی کے اصولوںکو ایک سا رکھا ہے۔ شعر و سخن اورعلم و ادب سے تعلق ان کی عادتِ ثانیہ میں شامل رہا ہے جس سے انھوں نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔وقت کے دھارے پہ نت نئے انداز میں خود کو ثبت کرنے کا جتن کیاہے،کبھی کالم نگار کے روپ میں ، کبھی مدیر کے انداز میں، کبھی محقق کی شکل میں ،کبھی شفیق استاد کی صورت میں اور کبھی اچھے منتظم کی طرز میں،اسی لیے میں انھیں وقت کے سمے کا کامیاب و کامران شاہسوار کہوں گا جنھوں نے لا محدودکائنات اور وقت کے بے انت سمند ر میںمن و تو کے دائرے کو مٹاتے ہوئے خود کو درویش اور صوفی کے منصب پہ لا کھڑاکیا ہے۔نیلگوں آسمانوں سے اترتی سفیدروشنی سے اس زمین زادے نے بہ ہر حال اپنا تعلق استوار کیا ہے۔انھوں نے کائنات کے خلا اندر خلا میں، خاموشیوں کی صدا سننے کی صلاحیت سے خود کو مالا مال کیا ہے۔ایک ہم ہیں جو کائنات کی اندھیروں میںبے ترتیب آوازیں سننے سے قاصرہیںایک وہ ہے جوبسیط اندھیروں میں نوائے سروش سن لیتا ہے۔یہ ایسے ممکن نہیں زیست کی ساٹھ بہاروں کی ریاضت ہے جسے محنت اور شوق کے چرخے پہ کاتاگیا ہے۔کوئی نہیں جانتاکہ ذات کی نفی کی ریاضت میںکائناتی قوتوں نے ان کی ذات کا اثبات کیسے کیا ہے؟۔۔۔۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی عمر، تدریس کے دشت کی سیاحی میں گزری ،تلامذہ کی طویل فہرست ان کے حصے میں آئی اوریوںدنیا کی ظلمتوں میں شمع سے شمع روشن ہوتی چلی گئی۔کئی پیاسوں کی فکری آبیاری ہوئی،جہالت کے ریگ زار ،گل و گلزار میں بدلے اورنفرتوں کے بیج بونے والوںکی سرزمینیں بنجر ہوئیں ،محبت اور خلوص کے پھول چننے والوں میں قربتیں بڑھیں ،کائنات کی بے انت وسعتوں میں علم وادب سے مملو ،انس و محبت کے پرچار اور خلوص کے جذبے سے سر شارانسانوں میں اضافہ ہوا۔ کمرہ جماعت میں علم کے پیاسوں کوجس محبت اور پیار سے انھوں نے علم و ادب کی دولت سے نوازا ،وہ عدیم المثال ہے۔ اس لمحے، بے اختیار ہوں کہ وقت کے تسلسل کو روک نہیں سکتا ،اگر روک سکتا تو ساٹھ کے ہندسے سے پہلے سمے کو روک لیتا اور استاد محترم کے بحر علم کی شناوری سے چند اور موتی چن لیتا مگر وقت کے سامنے بے بسی کے اس احساس نے مجھے بے بس کر دیا ہے اور بے اختیاری کے اختیار میںخود کومحصورکرکے ، کم مائیگی کے جبرکو محسوس کر رہا ہوں۔کائنات کے ساز کا یہی تو سوز ہے جوایک سر بستہ راز کی صورت موجود ہے ،یہ وہ اسرار ہے جو ہر ایک پر منکشف نہیں ہوتا،شاید اس کے لیے طویل ریاضت اور جاں کاوی کی ضرورت ہوتی ہے۔کائناتی ساز کے اس نغمے پہ کسی صوفی کے مانند رقص کناں ہونے کو جی چاہ رہا ہے ۔مگر میں ناچ نہیں سکتا کیوں کہ بے اختیاری کی اس کیفیت میں کچھ لمحے میرے پاس اختیار کے بھی ہیں جہاں میں ہوش میں ہوں ، ۔۔۔۔