تحقیق

غالبؔ کا مابعدنوآبادیاتی مطالعہ : محمد عامر سہیل

prose in the colonial context Ghalib’s
Muhammad Amir Sohail
Abstract:
Ghali is a great urdu poet.His poetry is full of creativity and imagination.Ghalib’s poetry has been given more importance in terms of art and thought.His prose receiver little attention from an intelllectual point of view.This article presents a colonial study of "DASTANBOO” and letters.An objective study of ‘DASTANBOO’ and letters will lead to new revelation about Ghalib.This study will reveal the dual personality of Ghalib.Why did Ghalib abuse Mujahideen in love with the british.Why did Ghalib reconcile with the british.How a greatcreator puts national interest before personal interestt.About Ghalib,this article will answer these questions.

       عہد غالب ایک تہذیبی دور سے نئے استعماری دور میں داخل ہونے پر مشتمل ہے۔ بادشاہت سے استعماریت میں داخل ہوتا یہ عہد کئی تغیرات سے گزرا۔ جن فضائوں میں غالبـؔ نے زندگی کی پہلی سانس لی، وہ فضائیں آنے والے سات سالوں میں اس خبر/واقعہ/حالات کا پیش خیمہ تھیںکہ ایک دن ایشیا کا وسیع علاقہ (ہندوستان) یورپی ہیرو (برطانیہ) کی یلغار/زد/استعماریت سے نہیں بچے گا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ۱۷۹۹ء کے بعد ہندوستان میں کوئی ایسا بہادر/دلیر اور طاقت ور موجود نہ تھا جوانگریزوں کا مقابلہ کر سکتا۔انگریزوں کے لیے ملک کی سیاسی فضا ساز گار تھی کہ اس کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے۔۱۸۰۳ء میں دلی فتح ہوئی۔ پس پھر گوروں نے ہندوستان کے بقیہ علاقوں کو زیر کرنے میں دیر نہ کی اور دن بدن سارے علاقے قبضے میں آتے گئے۔ بالآخر انگریزوں نے ۱۸۴۹ء کو پنجاب بھی فتح کر لیا۔۱۸۵۷ء میں سلطنت برطانیہ کا مکمل تسلط ہو گیا۔
ہمارے مطالعہ میں غالبؔ کے چند خطوط جو ۱۸۵۷ء کے تناظر میں لکھے گئے ہیں اور ’’دستنبو‘‘ ہے، جس کو غالب نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا مشاہدہ قرار دیا ہے۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۸۶۹ء(وفات غالب)تک بارہ تیرہ سال بنتے ہیں۔ بحثیت مجموعی ہمارے مطالعے میں یہی بارہ تیرہ سال رہیں گے۔ اس عرصے میں غالب کی شخصیت کے جو پہلو سامنے آتے ہیں ان کو دستنبو اور خطوط کی روشنی میں بیان کیا جائے گا۔
ہر دور کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ یہ مزاج اس کے سیاسی حالات کے تابع ہوتا ہے۔ سیاسی حالات ہی کسی دور کے معاشی و سماجی حالات کو جنم دیتے ہیں۔مرکز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مزاج سیاسی، معاشی اور سماجی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ عموماًجس طرح سیاسی و معاشی حالات ہوں گے، اسی طرح وہاں شخصیت پروان چڑھے گی۔ پس یہ ثابت ہوا کہ کسی شخصیت کو جاننے کے لیے وہاں کے سیاسی حالات کا جائزہ لیناازبس ضروری ہے۔۱۸۵۷ء سے قبل دو سال سے وفاتِ غالب ۱۸۶۹ء تک کا یہ عرصہ انتہائی پر آشوب تھا۔ اس عرصے میں غالب دلی میں قیام پذیر تھے۔ دلی کے حالات دگرگوں تھے۔ اس دور نے غالب کی شخصیت میں تبدیلی لائی۔ عجیب سی کش مکش میں ان کی شخصیت گرفتار رہی، جس کا تعین آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔
غالبؔ کو آج ان کے دیوان (اردو) اور خطوط کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ غالب ایسی ادبی شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں، کہ باقاعدہ ادبی اصطلاح ’’غالبیات‘‘ بن گئی ہے۔
اردو ادب میں یہ اعزاز صرف دو شخصیات کو حاصل ہے جو ہر لکھنے پڑھنے والے کے زیر مطالعہ ہیں۔ میری مراد غالب (غالبیات) اور اقبال (اقبالیات) ہیں۔ غالب کو بحثیت شاعر اس لیے عظیم مانا جاتا ہے کہ ان کے ہاں موضوعاتی تنوع ،فکرکی معراج، فلسفیانہ اظہار اور اسلوب کی وہ ندرت ہے جو اس سے قبل کلاسیکی شعری روایت میں نہیں ملتی۔ غالب کی نثر میں خطوط سرفہرست ہیں جو اپنے اسلوب کے حوالے سے ناقابل تردید اہمیت کے حامل ہیں۔ نیز ان خطوط کی ادبی حیثیت کے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت زیادہ اہم ہے، جن سے نہ صرف تاریخ بلکہ ان کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ غالب اپنے اردو دیوان اور خطوط کی وجہ سے زندہ آباد ہیں۔
ساٹھ سال کی عمر میں ایک آدمی ،اس سے بڑھ کر شاعر اور وہ جو نابغہ روزگار ہو، اس کی سوچ /فکر کو دیکھنا کہ آیا اس نے جنگ آزادی سے پیدا ہونے والے حالت و واقعات کو کس نگاہ سے دیکھا؟ کیا رد عمل ظاہر کیا؟ اس سبب سیاسی اور قومی شعور کس حد تک ظاہر کیا؟انگریزوںسے کون سا رویہ اپنایا؟ ہم وطنوں سے کیسے وابستگی رکھی؟ اور اس پر آشوب عرصے میں زندگی کے آخری سال کس طرح گزارے؟ ان سوالوں کے جواب آئندہ سطور میں سامنے آتے جائیں گے۔
غالب اور انگریزوں میں استعمار زدہ اور استعمار کار کا رشتہ ہے۔استعمار کار اور استعمار زدہ کے رشتے کی وضاحت ہومی کے بھابھا نے جامع انداز میںبیان کی۔ بھابھا نے ان دونوں میں صرف مزاحمت یا صرف متابقت کا نہیں بلکہ ’’دو جذبی‘‘ (Ambivalence ) رویہ تلاش کیا ہے۔ ناصر عباس نیر نے ’’دو جذبیت‘‘ کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ پہلی حالت مرتکز ہے۔ اس سے مراد کسی شے کے سلسلے میں محبت اور نفرت ہو اور دونوں میں یکساں شدت پائی جاتی ہو۔ دو جذبیت کی بقیہ دو حالتیں منتشر (کسی وقت تحسین کے خیالات، کسی وقت تنقیص کے خیالات) اور متذبذب (کسی شے کی آرزو اور ترک کے جذبات) ہیں۔ مذکورہ تینوں حالتوں میں کسی ایک حالت میں غالب نظر نہیں آتے۔ بلکہ وہ تو ایک ایسی کش مکش میں نظر آتے ہیں جس میں ان کی نظر عزت اور دولت سے آگے نہیں بڑھتی۔
ناصر عباس نیر نے سرسید کو پرو میتھیس(آگے کی طرف دیکھنے والا) اور اکبر کو ایپامیتھیس (ماضی کو دیکھنے والا) قرار دیا ہے(۱)۔ ایک نظر غالبؔ پر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ غالب پرومیتھیسس ہیں نہ کہ ایپا میتھیس ،بلکہ وہ تو ایک ایسی ذہنی و نفسیاتی کش مکش میں مبتلا ہیں جس کو قومی و سیاسی شعور سے کوئی علاقہ نہیں۔
ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
(غالبؔ)
سرسید کے ہاں اصلاح معاشرہ،تہذیبی ،اخلاقی اورتعلیمی سربلندی اہم ہے۔ اکبر الہ آبادی کے ہاں اپنے آباء کی یاد اور ان کے روشن کارناموں کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔آزادؔ، شبلیؔ، حالیؔ اور نذیرؔ کے ہاں ناصر عباس نیرنے یورپی تہذیب کی آرزو اور نقل بھی اور یورپ کی آرزو اور نقل کرنے والوں پر تنقید بھی تلاش کی ہے(۲)۔ ناصر عباس نیر نے آزاد، سرسید، شبلی، حالی اور نذیر کے ہاں ’’دو جذبیت‘‘ کو قومی و سیاسی شعور کے تناظر میں تلاش کیا ہے۔ اسی معیار پر غالب کے خطوط اور دستنبوکا جائزہ لیا جائے تو ان کے ہاں ’’قومی شعور‘‘ کو تلاش کرنا خاصا مشکل ہے۔ اس لیے کہ ان کے ہاں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کا رجحان نہیں۔ خطوط میں ان کی حالت ایک تبصرہ نگار صحافی کی طرح ہے جو خبروں کو نقل کر رہا ہواور ساتھ ساتھ ذاتی دکھ بیان اور رونا رو رہا ہو۔ غالب اور مذکورہ پانچ شخصیات نیز اکبرالہ آبادی بھی، میں فرق ہے۔سرسید، اکبرالہ آبادی، حالی، شبلی، آزاد اور نذیر انگریزوں کی آمد کو جس نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ نگاہ تہذیبی و ثقافتی ہے۔جبکہ غالب کے ہاں نئی تہذیب، ابھرتی تہذیب کوئی معنی نہیں رکھتی،اور اگر معنی رکھتی بھی ہے تو وہ شاعری کی حد تک ہو گی جبکہ ہمارا مطالعہ دستنبو اورخطوط تک محدود ہے۔ یہاں ایک اور پہلو بھی سامنے آجاتا ہے کہ غالب کے ہاں تہذیبی و ثقافتی شعور بھی ماند پڑا ہوا ہے۔جبکہ مذکورہ چھ شخصیات کے ہاں تہذیبی و ثقافتی شعور پایا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ’’دوجذبیت‘‘ میں مبتلا ہیں۔ بعض ناقدین نے غالبؔ کے ہاں سیاسی شعور کو ثابت کیا ہے۔ اس سے اختلاف نا ممکن ہے۔ سیاسی شعور پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ابھرتے سورج کو سلام کیا اور انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے دستنبو لکھی۔دستنبو انگریزوںسے وفاداری ثابت کرنے اور ہم وطنوں پر لعن طعن کرنے کا مظہر ہے۔ خطوط اور دستنبو میں پایا جانے والا تضاد ہی تو ان کا سیاسی شعور ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر بات کو حق سچ بیان کیا جائے اورانگریزوں سے کسی معاملے پر اختلاف کیا جائے تو پنشن بحال ہو گی نہ وظیفہ ملے گااور نہ ہی ’’کوئین پوئٹ‘‘ کی خواہش پوری ہو گی۔ یہی ان کی سیاسی چال تھی کہ خاندان تیموریہ سے تعلقات کو چھپاتے رہے۔ ان کا سیاسی شعور صرف اسی چال تک ہی محدود تھا کہ گوروں سے وفاداری ثابت رکھوں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسا سیاسی شعور جو کسی صورت ’’قومی شعور‘‘ کی سرحدکو چھوتا نظر نہیں آتا۔
۱۸۵۷ء سے دو سال قبل ملکہ وکٹوریہ کی مدح میں قصیدہ لکھا، لارڈ کینک کو خط میں وظیفہ دینے کی طرف مائل کیا اور یہ خواہش ظاہر کی، ملکہ معظمہ مداح کو خطاب اور پنشن عنائت فرمائیں۔ غدر کے وقت ان کی آمدن کے دو بڑے ذرائع تھے۔ اول قلعہ معلٰی سے پچاس روپے ماہانہ، دوم خاندانی پنشن کے باسٹھ روپے آٹھ آنے۔ بہ وجہ غدر دونوں ذرائع ختم ہو گئے(۳)۔ اس صورت حال میں انہیں جان کے لالے پڑگئے۔ دوران غدر گوشہ نشین ہو گئے۔ تاریخ تیموریہ لکھنا چھوڑ دی، ویسے بھی اب اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اب وقت کی ضرورت تھی کہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جائے۔ سو غالب نے ایسا ہی رویہ اختیار کیا، انگریزوں کے ہم نوا بن گئے۔’’دستنبو‘‘ لکھی۔ جس کا مقصد سوائے انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ یاد رہے جب مجاہدین نے قلعہ کو انگریزوں سے آزاد کروا لیا تو اس وقت غالب نے بہادر شاہ ظفر کے حضور فارسی قصیدہ پڑھا۔ ممتاز حسین کی رائے پیش ہے:
’’قومی بغاوت کے دنوں میں جب تک کہ دلی پر باغیوں کا قبضہ رہا غالب غیر جانب دار نہ تھے۔ وہ بادشاہ کے ساتھ تھے۔ فتح آگرہ کی خوشی کے موقع پر قصیدہ پڑھا اور سکہ کہا(۴)۔‘‘
جب دوبارہ انگریزوں نے دلی کو اپنے قبضہ میں لیا تو غالب انگریزوں کے ساتھ مل گئے۔ پھر مکمل طور پر انگریزوں سے مل گئے اور گھر میں محدود رہ کر ’’دستنبو‘‘ لکھی، نہ صرف حالاتِ غدر بیان کیے بلکہ اپنی خواہشاتِ آخر اور اپنی ذات کا کھل کر اظہار کیا۔ عظیم شاعر کا مزاج اس سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ دستنبو میں لکھتے ہیں:
’’اہل ایران نے آتش پرستی سے منہ موڑ کر خدا پرستی کا راستہ دیکھا لیکن ہندوستان والے منصف حاکموں (انگریزوں) کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر درندہ صفت انسانوں کے دام میں گرفتار ہو گئے ۔ تم نہیں دیکھتے ہو کہ دامن و دام اور دارِورَدمیں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ کسی دوسری حکومت سے انصاف کی امید رکھنا بالکل نادانی ہے۔۔۔ملازمین، حاکموںسے بغاوت کریں۔ سیاسی افسروں کو قتل کریں اور خوشیاں منائیں اور ان کو ذرا پشیمانی نہ ہو۔‘‘
بحثیت مورخ قلعہ معلٰی سے وابستگی کے وقت غالب آرام و سکون میں تھے اور آنے والے دن ایک نئے ہنگامہ کی خبر دے رہے تھے۔ یہ ہنگامہ اصل میں جذبہ آزادی تھا۔ غالب قلعہ معلٰی میں ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ماحول میں رہ رہے تھے۔ غدر میں تو ان کا یہ سب سکون و آرام جاتا رہا۔ ملاحظہ ہو:
’’یہ تیز رفتار آسمان اس خیال میں محو تھا کہ ایک نئے انقلاب کا خاکہ مرتب کرے اور میرے اس سکون و آرام کو جس میں آسائش و فراغت کا کوئی حصہ نہیں تھا اور جو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک تھا، تباہ کردے۔‘‘
ایک طرف وہ انقلاب سے قبل کے زمانے کو سکون و آرام سے عبارت کرتے ہیں، دوسری جانب اسے آسائش اور فراغت سے عاری قرار دیتے ہیں۔ انقلاب ۱۸۵۷ء کو اپنی تباہی و بربادی کہتے ہیں۔ ساتھ یہ کہ انگریزی حکومت کے علاوہ کسی دوسری حکومت سے انصاف کی امید رکھنا نادانی ہے۔ ان بیانات میں سخت تضاد ہے۔ اور یہ تضاد خود ان کی ذہنی کش مکش اور نفسیاتی الجھنوں کا نتیجہ ہے۔ یہ نفسیاتی صورت حال بھی ان خاص حالات بالخصوص معاشی حالات سے سامنے آتی ہے۔ قلعہ معلٰی سے وابستگی، مغلیہ حکومت کا ختم ہونا، انگریزوں سے دوستی اور وفاداری کا ثابت کرنا، ان کی طرف سے سکہ کا الزام اور پنشن و وظائف کا نہ ملنا، یہ وہ صورت حال تھی جس میں غالب پھنسے ہوئے تھے۔ غدر کے دن کا حال بھی سن لیں:
’’۱۱ مئی ۱۸۵۷ء کو اچانک دہلی کے قلعہ اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں اور میرٹھ کی فوج کے کچھ بدنصیب اور شوریدہ سر سپاہی شہر میں آئے، نہایت ظالم و مفسد اور نمک حرامی کے سبب سے انگریزوں کے خون کے پیاسے۔۔۔ جدھر کسی افسر کو پایا اور جہاں ان قابل احترام (انگریزوں) کے مکانات دیکھے جب تک ان افسروں کو مار نہیں ڈالا اور ان مکانات کو بالکل تباہ نہیں کر دیا، ادھر سے رخ نہیں پھیرا۔‘‘
ہم وطن ظالم و مفسد بن گئے اور بدیسی قابل احترام ۔ مذکورہ اقتباس انگریزوں کے دکھ پر رونا ہے۔ انگریزوںکا قتل ہونا غالب کے لیے کس قدر تکلیف دہ تھا۔ یہیںسے ان کا مزاج واضح ہوتاہے۔ یاد رہے غالب کو انگریز عزیز تھے نہ مغل اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت۔ صاحب اقتدار سے انہیں جو رغبت، قربت اور محبت کے احساس تھے وہ فقط مادی تھے۔ ان میں خلوص نہ تھا۔ انگریزوں کی ہم دردی بھی اسی لیے تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ مغربی تہذیب سے متاثر ہوں۔ حالات کے ساتھ سمجھوتہ قومی شعور کے ساتھ نہ تھا، اپنے مفادات کے لیے تھا۔اس لیے کہ حالات کا ساتھ دانش وارانہ طور پر دینا اور بات ہے اور خوشامدانہ طور پر دینا اور بات۔ گویا غالب کی اولین ترجیح زیادہ ساری عزت اور تھوڑی بہت دولت تھی۔ دستنبو میں اپنے ہم وطنوں کو یوں درس دیتے نظر آتے ہیں:
’’محکوم کا حاکم سے لڑنا(ستالی) پر ہاتھ مارنا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ دنیا والوں کے لیے مناسب ہے کہ جن لوگوں کو خدا نے خوش بختی عطا کی ہے ان کے سامنے سر جھکا دیں اور فرماں روائوں کے حکم کی تعمیل کو خدا کے حکم کی تعمیل سمجھیں۔ جب ہم کو یہ معلوم ہو گیا کہ خوش نصیبی، حکومت اور طاقت کس کی بخشی ہوئی ہے تو پھر سر کشی اور بیزاری کیوں ہے؟‘‘
بادشاہت کے دوران رعیت میں پایا جانے والا یہی وہ مابعدا لطبیعاتی نظریہ ہے جس کو غالب نے ترجیح ہی نہیں دی بلکہ فروغ دیا۔ اسی نظریہ کی بنیاد پر بادشاہت کی عمارت قائم رہتی تھی۔ انقلاب اُسی صورت آتے ہیں جب ایسے نظریات ختم ہوتے ہیں۔ ایسے نظریوں سے سوائے محکومی، غلامی اور استحصال کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ’’صاحب دستنبو‘‘ کہتے ہیں شہر میں کوئی دوست اور شناسا نہیں۔ مسلمانوں کے گھر ویران ہیں۔ حالات دگرگوں ہیں۔ میری اس تنہائی میں میر ے ہم زبان میری قلم اور میرا ساتھی میرا سایہ ہے۔ یہ سب جاننے کے باوجود وہ انگریزوں کو رعایا پرورکہنے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتے۔ غدر کے بعد سیاسی کش مکش اور جنگ و جدل تو ختم ہوئی لیکن غالب کے داخل میں ایک نئی کش مکش نے جنم لیا۔ ’’استادشہ‘‘ کے بعد ’’کوئین پوئٹ‘‘ بننے کی خواہش نے شدت سے جنم لیا۔ اپنی معصومی اورہم دردی کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’کچھ مسکین گوشہ نشین جن کو انگریزی حکومت کی مہربانی سے کچھ نان و نمک میسر تھا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے دور زندگی کے دن گزار رہے تھے۔ (ایسے مسکین اور صلح پسند) جو تیروتبر سے ناواقف تھے۔۔۔جن کے ہاتھ تیروتلوار سے خالی تھے۔۔۔ انہیں غم زدہ لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔‘‘
جن لوگوں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت نہیں کی، ان کے لیے ’’غم زدہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اب یہ معلوم کرنا مشکل ہے غالب کو انگریزوں کی آمد اور ہم وطنوں کے قتل عام کا غم ہے یا باغیوں کے ہاتھوں انگریزوں کا قتل ،غم زدہ کیے ہوئے ہے۔ اگر مجموعی طور پر غالب کے مزاج کو دیکھا جائے تو انہیں کوئی غم نہیں۔ جس غم کا انہوں نے اظہار کیا ہے وہ انگریزوں کے قتل کا غم ہے۔ انگریزوں کی تعریف و توصیف اور ان کے قتل پر نوحے کہے۔ انیس ناگی کی رائے یہ ہے:
’’۱۸۵۷ء کے بعد انہوں نے ایک پینترا بدلا اور خود کو جدی پشتی وفادار ثابت کرنے کے لیے قصیدہ نگاری کی شکل میں کمرشل ادب تخلیق کرنے لگے(۵)۔‘‘
دستنبو اور قصائد حقیقت میں کمرشل ادب ہی ہیں۔انگریزوں کو جہاں مسلمان نظر آتا وہ انہیں سر عام قتل کر دیتے۔ پھانسی چڑھا دیتے۔
چوک کہتے ہیں جس کو مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زنداں کا
(غالبؔ)
خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالب نے دلی کو شہر نہیں، قہر کا نام دیا۔ ان سب کے باوجود دستنبو میں انگریزوں کو جو القابات سے پکارا ان میں چند اہم یہ ہیں۔ منصف حاکم، پیکر علم حکمت، انصاف سکھانے والے، خوش اخلاق و نیک نام حاکم، صاحبان علم ودانش، فاتحین عالم، شیر دل فاتحین، قابل احترام، باشان وشوکت گروہ (انگریزوں کے اس گروہ کو کہا جنہوں نے دلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضے میں لیا) عقل مند، حقیقت پسند اور نیک ذات جیسے القابات دیے۔ انگریزوں کی عورتوں کو پری چہرہ نازک بدن خواتین کہا۔ ملکہ وکٹوریہ کو ملکہ معظمہ (عظمتوں والی)، ملکہ انصاف پسند اور آقائے ہنر پرور جیسے القابات دیے۔ اس کے علاوہ ملکہ کی شان میں جو کچھ دستنبومیں بیان کیا گیا ہے، وہ آخر میں بتایا جائے گا۔ جنگ کے بعد دہلی میں تعینات ہونے والے برٹش چیف کمشنر چارلس سانڈرس کو ماہِ تابندہ، نرخ طلعت، فرخندہ سیرت، ستارہ چشم، سرور عادل، رعایا پرور جیسے القابات دیے۔ دلی پر دوبارہ حملہ کرنے والے انگریزوں کے دستوں کو سپاہِ کینہ خواہ کے بہادر، کوہ شگاف اور اژدھا شکار فوج اور باشان و شوکت گروہ کہا۔ صاحب دستنبو نے یہ سب الفاظ والقابات سامراجی واستحصالی عزائم رکھنے والے استعمارکاروں کے لیے استعمال کیے۔ اس کے بر عکس استعمارزدہ، جنہوں نے استعمارکاروں کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کیا ان کے لیے جو الفاظ استعمال کیے، وہ ملاحظہ ہوں۔ نمک حرام، بدباطن، خبیث آور، آوارہ لوگ، دیوانے، ناخداترس، ناشکرے، سیاہ بخت، برے اور بدذات اور ظالم و مفسد جیسے الفاظ۔ ایک تشبیہ بھی استعمال کی۔ کہتے ہیں، گمراہ باغی اندرون بیرون شیر سے خنزیروں کی طرح بھاگنے لگے۔ باغیوں (جو اصل میں مجاہدین تھے) کے لیے کہتے کہ ان کے دل خدا کرے خون ہو جائیں اور ان کے ہاتھ خدا کرے بے کار ہو جائیں۔
۱۱مئی ۱۸۵۷ء کو دلی کو انگریزوں کے قبضے سے چھڑوایا گیا جب کہ چار ماہ بعد انگریزوں نے دوبارہ حملہ کر کے دلی کو قبضے میں لے لیا۔ اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’مئی کے مہینے میں اگر انصاف دلی سے اٹھ گیا تھا تو ستمبر میں ظلم وستم کا دور ختم ہو گیا اور انصاف کا زمانہ واپس آگیا۔ چار مہینے دن کے بعد سورج آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوا۔ دلی دیوانوں سے خالی ہو گئی۔ عقل مند (انگریزوں) نے بہادری کے ساتھ اس پر قبضہ کر لیا۔‘‘
جن کو انصاف پسند، رعایا پرور اور بہادر کہا گیا انہیں کے ہاتھوں غالب کے بھائی یوسف کا قتل ہوا۔ غالب نے بھائی کے قتل کو بھی چھپانے کی کوشش کی اور اسے طبعی موت قرار دیا۔ مسلمانوں پر ہونے والے تمام ظلم وستم غالب جانتے تھے۔ ایسا ہر گز نہیں کہ انہیں معلوم نہ تھا۔ خطوط میں ایک رپورٹر کی طرح اس ساری صورت حال کی خبر ملتی ہے، ان کے سامنے تھا۔کہ:
شیر دلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنہ خون ہے ہر مسلمان کا
(غالب)
لیکن ناقابل فہم حد تک انہوں نے اس کو چھپانے کی کوشش کی۔ دستنبو میں لکھتے ہیں باغی اپنے خیال میں دشمنوں (انگریزوں) کو قتل کر رہے تھے لیکن میرے خیال میں وہ شہر کی عزت وآبرو برباد کر رہے تھے۔ اس بیان سے عظیم شاعر کا تہذیبی و ثقافتی شعور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں کسی کا غم نہیں، کسی کا دکھ نہیں بلکہ صرف ایک مدعا ہے ان کے پاس اور وہ یہ کہ وظیفہ اور عزت مل جائے ۔ وظیفہ اور عزت کے لیے غالب نے ساری زندگی دربدر ٹھوکریں کھائیں۔ وقت شناسی کے حوالے ہم دیکھ سکتے ہیںکہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے ہنر سے واقف تھے۔ جس طرح کے حالات ہوں اسی طرح کا مزاج اپنا لیتے تھے۔میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں:
’’چپکے ہو رہو اور مجھ کو کسی عالم میں غمگین اور مفطر گمان نہ کرو۔ ہر وقت میں جیسا مناسب ہوتا ہے، ویسا عمل میں آتا ہوں(۶)۔‘‘
حالات کی نزاکت کو بھانپنا اور ان کے مطابق ڈھل جانا غالب کی شخصیت کا اہم پہلو ہے لیکن یہ دانشورانہ حکمت عملی نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں عمر کے اس آخری عرصے میں وظیفہ اور صلح عزیز ہے ۔ خطوط میں غالب کا دردوالم نظر آتا ہے لیکن اس میں بھی ذاتیات کو اولیت حاصل ہے۔ بہت سے خطوط میں یہ کہتے نظر آئے ہیں کہ سارے دوست احباب چل بسے، مجھے رونے والا کون ہو گا۔ غدر کا منظرنامہ ایک مخبر کی رپورٹ کی طرح پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
’’پانچ لشکر کا حملہ پے درپے اس شہر پہ ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر، اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں (انگریزوں ) کا، اس میں جان ومال و ناموس و مکان ومکین، آسمان وزمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ تیسرا لشکر کال کا، اس میں ہزار آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضے کا، اس میں پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا، اس میں تاب وطاقت عموماً لٹ گئی۔‘‘
دوسرے لشکر نے جو کارنامے انجام دیے ان کا ذکر بھی غالب نے کیا ہے۔ یہ خط چوںکہ ایک شخص کے لیے تھا اس لیے اس میں حقیقت بیان کر دی گئی۔ چوںکہ ’’دستنبو‘‘ خاص مقصد کے لیے لکھی گئی ، انگریزوں کی طرف بھیجنی تھی اور ذریعہ رزق تھی اس لیے یہ سب نہ لکھ پائے، بلکہ خوشامدی رویہ اپنایا۔ اس دور کا مزاج خوشامد پر مبنی تھا۔ جس کے اثر سے غالب جیسے نابغہ روزگار نہ بچ سے۔اس ضمن میں غلام حسین ذوالفقار کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’عملی زندگی کا یہ وہ میدان تھا جس میں ایک عام دنیا دار فرد کی حیثیت سے غالب کو حالات سے مفاہمت کر کے زیست کو اپنے اور اپنے لواحقین کے لیے خوش گوار بنانا پڑ رہا تھا۔ بعض اوقات اپنی مطلب براری کے لیے غالب خودداری کے معروف مفہوم سے بھی گزر کر حالات سے سمجھوتہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات ان کی شاعرانہ انا کے برعکس معلوم ہوتی ہے۔ لیکن امرواقعہ کا کیا کیجئے۔ جو لوگ غالب کو ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے دیکھتے اور انہیں بشری کمزوریوں سے مبرا سمجھتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ باتیں ناقابل قبول ہوں۔ لیکن حقیقت موجود ہو تو اس سے گریز اچھا نہیں ہوتا(۷)۔‘‘
کسی بھی تخلیق کار کی شخصیت اور اس کا ذہنی انتشار اس کی لکھت/تحریر سے واضح ہو جاتا ہے۔ غالب نے سیاسی و سماجی حالات وواقعات کا جو بیان اور اظہار اپنے خطوط کے ذریعے کیا ہے وہ خبر یہ طریق بیان ہے۔ اور جو اظہار ’’دستنبو‘‘ کے ذریعے کیا ہے وہ سراسر غرض وغایت پر مبنی ہے۔ جس میں حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دستنبو میں ملکہ وکٹوریہ کی شان میں جو قصیدہ لکھا، ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ مالک تیغ و نگیں و علم ہے۔ وہ شہنشاہ ،سلطنت بخش اور بادشاہ سازہے۔ صاحب دانش، فرخ طلعت اور نیک خو ہے۔ اس کا مرتبہ انصاف میں نوشیرواں سے بلند ہے۔ جمشید کے پاس جو درخشاں علم تھا وہ اس لیے اس کو حفاظت سے رکھتا تھا کہ اس ملکہ نام ور کے سپرد کردے۔ خسرو کی طرف سے ترنج زر اور اس کے ساتوں خزانے بغیر زحمت اٹھائے ہوئے ملکہ کو بہ طور تحفہ ملے ہیں۔ وہ تخت سلیمانی جس کو ہوا اپنے کندھوں پر لے جاتی تھی فرشتہ غیب نے ملکہ کے سامنے بطور پیش کش پیش کیا ہے۔ تم نہیں دیکھتے ہو کہ پہاڑوں میں پتھروں کے جگر سے گوہر رنگارنگ برآمد ہوتے ہیں۔ سورج کو اس کے تاج کا خیال رہتا ہے ورنہ اسے موتیوں سے کیا کام۔ اگر وہ (ملکہ وکٹوریہ) موتی لٹانے کا ارادہ کریں اور لٹائیں تو (کثرت بخشش سے یہ حالت ہو گئی ہو) اگر کوئی شخص ان موتیوں کو شمار کرنا چاہے گا تو شمار کرتے کرتے اس کی انگلیاں گھس جائیں گی۔۔۔ وہ کرم وفیاضی سے اہل علم ودانش کو نوازتی ہے اور ان کی دانش مندی کی برکت سے دوسرے لوگ صاحب خِرد ہو جاتے ہیں اگر ملکہ عالم کی بخشش سے میں کچھ حاصل کر لوں گا تو اس دنیا میں ناکام نہیں جائوں گا۔‘‘
مذکورہ آخری جملے کے بعد میرا خیال ہے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن تجزیہ کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ کچھ سوالوں کے جواب دینا لازم ہو جاتے ہیں۔ جہاں خودکو وہ اہل علم ودانش میں شمار کر رہے ہیں وہاں ملکہ وکٹوریہ کی کرم و فیاضی کے گیت گا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ استعمارکاری سراسر سرمایہ دارانہ ہوتی ہے۔ بادشاہت اور استعماریت میں یہی بنیادی فرق ہے۔ عنائتیں، کرم، رحم، سخاوت اور فیاضی کی مثالیں بادشاہت میں ملتی ہیں۔ استعماریت میں تو صرف استحصال، جبر اور تشدد ہوتا ہے۔ اس لیے بدیسی استعمار سے فیاضی اور کرم کی امید سوائے ایک مغلوب باشندہ کی فریاد سے زیادہ کچھ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بچپن سے تادم آخر صاحب دستنبو انگریزی حکومت کے طفیل پلے بڑھے جس کا اظہار دستنبو میں کرتے ہیں۔اور یہ اظہار ان کا بڑاپن ہے۔
ملکہ وکٹوریہ اور حکام عالیشان کی تعریف میںجو قصائد لکھ کر بھیجے بعد ازاں ۷۱ مارچ ۱۸۵۸ء کو کمشنردہلی نے یہ لکھ کر واپس بھیج دیے کہ ان میںسوائے ستائش ومدح کے کچھ نہیں۔ دستنبو کی دو کاپیاں لندن بھیجیں اور چار ہندوستان میں حکامِ اعلٰی کی نذر کیں۔ اس کے باوجود جنوری ۱۸۶۰ء میں میرٹھ میں دربار ہوا، بہت سے درباریوں کو مدعو کیا گیا سوائے غالب کے۔ جب گورنر جرنل کا کیمپ میرٹھ سے دہلی آیا مرزا نے چیف سیکرٹری کے خیمہ میں ملاقات کے لیے اپنا ٹکٹ بھجوایا تو وہاں سے جواب ملا کہ ایام غدر میں تم باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے۔ اب گورنمنٹ سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔ لارڈکینگ کی تعریف میں قصیدہ لکھا:
زسال نوو گر آبے بروئے کار آمد
ہزار دہشت صد و شست درشمار آمد
یہ قصیدہ بھی اس حکم کے ساتھ واپس آیا کہ یہ چیزیں ہمارے پاس نہ بھیجا کرو(۸)۔ انگریزی حکومت کی طرف سے غالب سے یہ سلوک اس لیے ہوا کہ جب بقول غالب بدباطن، بدذات، خبیث آور اور آوارہ لوگوں نے دلی کو انگریزوں کے قبضہ سے چھڑا کر بہادر شاہ ظفر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا،تو غالب نے دربار میں جا کر قصیدہ پڑھا تھا۔ 4ماہ بعد انگریزوں نے دلی پر یلغار کر کے دوبارہ قبضے میں لے لیا، اس صورت میں انگریزوں کو پتہ تھا کہ غالب نے قصیدہ پڑھا تھا اس دوغلے پن کی وجہ سے انہوں نے ایسا سلوک کیا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ نجم الدولہ ان کی توپ اور بندوق کی زد میں نہ آئے۔
دستنبو جس غرض و غایت سے لکھی گئی وہ پوری نہ ہوئی تو غالب کی نظر ایک بار پھر والیان رام پور کی طرف اٹھی، وہاں سے وظائف پائے جو تادمِ آخر ملتے رہے۔
۱۸۵۷ء سے تادمِ آخر لکھے جانے والے خطوط سے ان کے ذاتی اور جنگ کے حالات میسر آتے ہیں۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب استعماری ظلم وستم کو دیکھ رہے تھے لیکن معاشی کس مپرسی نے انہیں انگریز کا وفادار بننے پر مجبور کر دیاتھا۔لطف الرحمٰن کی رائے دیکھتے ہیں:
’’مجموعی طور پر غالب ایک نوآبادیاتی نظام کی لعنتوں اور برکتوں کے درمیان مصائب و شدائد کا ہدف بن کر جینے پر مجبور تھے۔ ان کا تخلیقی باطن زخم زار بن چکا تھا۔ معاشی تنگی، قرض خواہوں کے مطالبات، ناکامیوں اور نامرادیوں کا تسلسل، تہذیبی شکست وریخت، انسانیت کی بے حرمتی، حسرتوں اور محرومیوں کی یلغار، غرض کہ ایک جانِ ناتواں اور غم والم کا سلسلہ لامتناہی، غالب آخر انسان تھے، پیالہ وساغر نہ تھے۔ گردش مدام سے ان کا دل گھبرا گیا تھا(۹)۔‘‘
تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس عہد کا مزاج ہی ایسا تھا جس میں تخلیق کار میں وجودی کیفیات پیدا ہو گئیں تھیں لیکن نابغہ روزگار شخصیات عہد کے جبر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں، نہ کہ غیر دانشورانہ سمجھوتہ ۔ دبیرالملک استعمار کے سامنے جھک گئے دوسرے لفظوں میں ان کا قلم بک گیا۔ ان کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ نظام جنگ نے ساری زندگی کوئی پیشہ اختیار نہیں کیا۔ انگریز کے پنشن خوار اور خیرخواہ رہے۔ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا اس لیے ضروری بن گیا۔ شمیم طارق نے یہ نتیجہ نکالا ہے:
’’مقام حیرت ہے کہ جو غالب اپنے شعروں میں ازکاررفتہ اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی و حال کے زندہ اور صالح عناصر سے ایک نئے اور مبارک مستقبل کی تعمیر کا درس دیتے نظر آتے ہیں یا جن کے بارے میں صفائی دی جاتی ہے کہ وہ روایتی نظام تعفن پیدا کرنے والے ٹھہرائو سے ادب کو انگریزوں کی ہنر مندیوں اور اجتہادوایجاد پر فریفتہ ہو گئے تھے، وہ اس حقیقت کا آخر دم تک احساس نہیں کر سکے کہ حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے جو وقتی طور پر سرد تو پڑ سکتا ہے، ہمیشہ کے لیے مر نہیں سکتا(۱۰)۔‘‘
۱۸۵۵ء سے تادمِ آخر غالب عجیب ذہنی انتشار اور کش مکش میں رہے۔ اور اس پر آشوب عہد میں انہیں اپنے دم کی پڑی رہی۔ حب الوطنی، قومی شعور اور قومی غیرت و حمیت سے معذور رہے۔ اور ایسی کوئی فکر پیدا نہ کر سکے جس کے ذریعے ہم وطنوں کو اس عہد میں جینے کا حوصلہ ملتا، یا آزادی کے راستے آسان ہو جاتے۔
ہمارا مقصد یہ ہر گز نہیں کہ غالب سیاسی شعور سے عاری تھے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عمر کے ان آخری بارہ تیرہ سالوں میں انہوں نے کوئی تخلیقی فکر پیدا نہیں کی، خصوصاً نثر (دستنبو اور خطوط) میں۔ استعماریت کی دھوکہ دہی اور فراڈ کو وہ جانتے تھے، مسئلہ یہ ہے کہ جانتے ہوئے بھی انگریز دوستی کے خواہاں رہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
(غالب)
اس کے علاوہ بھی کئی اشعار میں عہد کے جبر، استعماری رویوں کی نقاب کشائی، وجودی کیفیات کا بیان اور مزاحمتی رویہ نظر آتا ہے، لیکن ہمارا بیان صرف دستنبو اور خطوط تک محدود تھا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ غالب نے چڑھتے سورج (برطانوی راج) کو کس زاویے سے دیکھا اور کونسا رویہ اپنایا۔

حوالہ جات
۱۔ ناصر عباس نیر، ڈاکٹر ،’’ اردو ادب کی تشکیل جدید ‘‘، کراچی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۶ ء،ص ۱۳۵
۲۔ ناصر عباس نیر، ڈاکٹر ، ’’اردو ادب کی تشکیل جدید‘‘، کراچی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۶ء ،ص۳۲۶
۳۔ شریف احمد عثمانی،پیر،’’ذکر غالب‘‘، ص ۵۵
۴۔ ممتاز حسین، ’’غالب ایک مطالعہ‘‘، کراچی: انجمن ترقی اردو، ۱۹۶۹ء ص ۲۰
۵۔ انیس ناگی،’’ تشکیلات ‘‘، لاہور: جمالیات، ۲۰۰۶ ء ،ص۲۹،۳۰
۶۔ غلام رسول مہر، ’’خطوط غالب‘‘ (بنام میر مہدی مجروح) ، ص ۲۹۳
۷۔ غلام حسین ذوالفقار ، محاسن خطوط غالب مع انتخاب خطوط غالب، لاہور: بزم اقبال، ۲۰۰۳ء،ص ۲۰
۸۔ محمد اکرام شیخ، حیات غالب ، لاہور :ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲۰۰۹ ء ،ص ۱۷۳، ۱۷۴
۹۔ لطف الرحمن، تعبیر و تقدیر، نئی دہلی : نرالی دنیا پبلیکیشنز، ۲۰۰۸ء
۱۰۔ شمیم طارق، غالب اور ہماری تحریک آزادی، لاہور،:دارالشعور، ۲۰۱۵ء ،ص ۴۱، ۴۲

younus khayyal

About Author

4 Comments

  1. younus khayyal

    دسمبر 27, 2020

    آج غالبؔ کا یومِ ولادت ہے۔
    اس موقع پر نوجوان نقاد اور محقق محمد عامر سہیل کاشاندارمضمون
    ’’ خیال نامہ ‘‘ کے قارئین کے لیے بطورِ خاص :

  2. یوسف خالد

    دسمبر 27, 2020

    بہت خوب عامر سہیل بہت محنت سے لکھا ہوا بہت عمدہ مضمون – تمہارے تنقیدی شعور کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے – اللہ توفیقات میں اضافہ فرمائے

  3. گمنام

    دسمبر 27, 2020

    بہت خوب عامر صاحب، اللہ کریم آپ پر علم و فضل کے مزید در وا فرمائے.

  4. فخر ندیم

    دسمبر 27, 2020

    بہت خوب عامر صاحب، اللہ کریم آپ پر علم و فضل کے مزید در وا فرمائے.

یوسف خالد کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تحقیق

علامہ شبلی ؒ بحیثیت مدیر : ڈاکٹرمحمدالیاس الاعظمی

علامہ شبلیؒ(۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء)نے مدیرکی حیثیت سے جو کارنامے انجام دئے اگرچہ گردش ایام نے ان کے نقوش دھندلے کردئے ہیں، تاہم
تحقیق

اساتذہء اردو میں مطالعے کا رجحان : مجاہد حسین

(نوٹ : یہ سروے رپورٹ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر صاحب کی زیرِ نگرانی تکمیل پذیر ہوئی اس میں تمام حقائق