تحقیق

ادراکی تنقید” نئی ادبی تنقیدی روایت کاتشکیلی وتفہیمی مطالعہ:ڈاکٹراسدمحمودخان

ادراکی تنقید” نئی ادبی تنقیدی روایت کا تشکیلی و تفہیمی مطالعہ
(Perceptualism: A Constructive Analysis of the New Literary Criticism Theory)
ڈاکٹر اسد محمود خان
Abstract:
The research endeavors to engage in a comprehensive and constructive analysis of the emerging literary criticism theory termed "Perceptualism.” This innovative approach marks a departure from usual literary criticism paradigms, introducing a nuanced framework that centers on the subjective and experiential dimensions of individual perception. Drawing inspiration from cognitive science, psychology, and linguistic theory, Perceptualism explores the intricate interplay between individual perception and literary interpretation. The study delves into the theoretical foundations of this novel approach, scrutinizing its key components, such as the role of perception processes, the influence of reader experience, and the dynamic relationship between creativity and imagery. By examining notable works and critiques within the "Perceptual Criticism” framework, the research aims to delineate the unique contributions, challenges, and potential implications of this evolving literary theory. Through a constructive analysis, the study seeks to elucidate the theoretical underpinnings of "Perceptual Criticism” and its relevance within the broader landscape of contemporary literary studies.
Key Words: Perceptualism, criticism, subjective, experiential, cognitive
ملخص

یہ تحقیقی مضمون نئے ادبی تنقیدی نظریہ، "ادراکی تنقید” کی جامع اور تعمیری تشکیل میں کارفرما عناصر کا تجزیاتی و تفہیمی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ اردو تنقید کے لیے بروۓ کار لاۓ گٸے نظریات، علمی و ادبی اور زمانی و مکانی اعتبارات سے قابلِ قدر اور قابل قبول روایت کا حصہ بن چکے ہیں ۔ لہٰذا عصری شعری ، افسانوی و دیگر نثری تجربات اور پیچیدگیوں کو سمیٹنے، سمجھنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے امکانی صورتوں کے مقابل نئے تجزیات و تشریحات کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے ۔ ادبی تنقید میں روایتی نقطہ نظر کے برعکس، ادراکی تنقیدی نظریہ داخلیت اور موضوعیت کے تناظرات میں کام کرتا ہے جہاں تنقید کا عمل غیر فعالیت سے نکل کر پُرجوش و بھرپور فعالیت سے مُتَّصَفْ ہے۔ ادراکی تنقید ، بنیادی طور پر ایک عمیق باطنی اور خارجی عناصر کی تعاملیت کا حاصل نظریہ ہے ، جو تخلیقی پیراٸے میں ہی واردات ِ قلب و ذہن کے تخلیقی اظہار کے تجزیہ و تفہیم کو ایک مخصوص نادر ، مدلل اور تازگی بخش اظہاری منہج فراہم کرتا ہے۔ یہ اختراعی نقطہ نظر روایتی اور مروجہ ادبی تنقیدی تمثیلوں سے منفرد اور نئے فریم ورک کو متعارف کراتا ہے جو تخلیق کی موضوعی اور تجرباتی جہتوں پر مرکوز ہے اور عصری ادبی مطالعات کے وسیع تر منظرنامے میں اس کی مطابقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کلیدی الفاظ: ادراکی تنقید، تعمیری تجزیے، تشکیلی وتفہیمی صورت، نظریہ، روایتی، باطنی و خارجی، مروجہ تنقید
"ادراکی تنقید”:نئی ادبی تنقیدی روایت کا تشکیلی و تفہیمی مطالعہ
ڈاکٹر اسد محمود خان
(1)
تنقید کیا ہے اور تنقید کیسے تخلیق کی ادبی معاونت کا ذمہ نبھا سکتی ہے؟۔
تنقید تجرباتی اور تصوراتی امکانات کے درمیان ایک تخلیقی اظہاریے کی صورت ہوتی ہے جو تخلیقی عمل کے دوران برتے جانے والے کِشت کارِ جہاں کے پختہ تجربات کی تخلیقانہ نمائندگی اور تخیل کے لامحدود دائروں کے درمیان ایک نفیس تعامل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اگرچہ یہ بحث نتیجہ طلب رہی گی کہ تخلیق و تنقید کے مابین تقابل یا اشتراک میں کس کا پلڑا بھاری ہوگا البتہ باہمی جڑت کی سچائی ہنوز باقی ہے۔ تجربے،علمیت اور اظہاریے کا ایک مثلث میں جڑ جانا ، ادراک (Perception)کی صورت گری کرتا ہے۔ خارجی تجربات، داخلی ردعمل یا داخلی تجربات اور خارجی ردِعمل ، رویے یا اظہار کی باہمی تال میل سے ہم آہنگ ایک منفرد شکل کو جنم دیتے ہیں جو ایک تخلیق، تخلیق کار اور تخلیق کے قاری کے درمیان ایک ادبی رابطے کی صورت کرتا ہے جسے تنقیدی تجربے یا تنقیدی تخلیق کہا جائے گاجو ادب کے اندر ایک جذباتی کھوج کا مضبوط اظہاریہ ہے۔ تجرباتی اور تصوراتی امکانات کے درمیان جوہرِ لطیف پہنچانے کی کوشش ادبی تنقید کے تجزیاتی دائرہ کار میں توثیق کی کوشش ہوتی ہے جہاں درستگی معنوی تشریحات اور فنکارانہ صداقت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
کلیم الدین احمد ، "تنقید کیا ہے؟” کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"تنقید ، متنوع تجربات کو جانچنے اور ان کی قدر کا تعین کرنے کے عمل کا نام ہے جو اپنی خالص ترین شکل میں، تخلیقی قدر کا ایک لازمی عنصر ہے۔ فن کی خود ملکیتی عمل میں یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ تخلیق زندگی کی آگہی کے مظہر کے طور پر کام کرتی ہے، جب کہ تنقید آرٹ میں موجود شعور کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔” (1)
ریٹا فلسکی (Rita Felski)، ادبی تنقیدی ترجیحات اور استعمالات کے بارے میں رقم طراز ہے:
"تنقید، تخلیق میں پہلے سے موجود طاقتوں کو بڑھاوا دینے میں معاونت کرتی ہے نہ کہ ان کو رد کرنے یا الجھاوا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ "(2)
بنیادی طور پر تنقید، ہمارے فکری منظر نامے کا ایک عمیق اور متحرک پہلو ہے ، جس کی خصوصیت تخلیق اور نقاد کے درمیان مسلسل ایک علمی، شعوری اور ادراکی مکالمے کی گنجائش کا اہتمام کرنا ہے ۔ تنقید، حقیقی طور پر یہ تخلیق کا ہی ایک منفرد معاملہ ہے جو اظہاریے کے تخلیقی وجود کی مابعد علمی و شعوری تجسیم میں تخلیقی و تنقیدی زندگی کی روانی کا معاملہ سنبھالتی ہے۔ سید احتشام حسین، تنقید کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"تنقید، منطق کی طرح ہر علم و فن کی تشکیل و تعمیر میں شریک ہے بلکہ وجدان اور جمال کے جن گوشوں تک منطق کی رسائی نہیں ہے، تنقید وہاں پہنچتی ہے۔ وہ رنگ و بو اور کیف و کم کے غیر متعین دائرہ میں صرف قدم ہی نہیں رکھتی بلکہ ابہام میں توضیح کا جلوہ اور بے تعینی میں تعین کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ "(3)
ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) ،تنقیدی معاملات پر مباحث سمیٹتے ہوئے رقمطراز ہے:
"تنقید ، دستگاہ اصلاح، تادیبِ انحراف اور خود سر رویے کا مرہم ہوتی ہے۔ تاہم، اس معاونِ اصلاح کو مخصوص آزادی اظہار کی آڑ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ ادبی تنقید کا میدان، ابھی تک ایک بے لاگ اظہار کے طور پر تیار نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک وسیع تر اخلاقی انسانی دائرہ کار کا معاملہ ہے جو اخلاقی، ثقافتی اور مذہبی تحفظات سے الگ نہیں ہے۔”(4)
فنکارانہ پیش کش کی جذباتی اساس انسانی (تخلیق کار)، فنکارانہ پیش کش کی تجزیاتی اساس تخلیق کے قاری یا نقاد کے انفرادی تجربے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ تخلیق، زندگی کے شعور کے ایک واضح مظہر کے طور پر اپنی تجسیم مکمل کرتی ہے جو ایک نئی دوشیزہ کی طرح اپنے سراپا، خدوخال اور کردار کی توجہ چاہتی اور شناخت کا مطالبہ کرتی ہے۔ تخلیقی معنویت کے الجھاوے میں تنقید ایک سہیلی کی طرح داخل ہوتی ہے تخلیقی تانے بانے میں علمی اور شعوری تہہ داریوں کی پرتیں کھولنے اور کشافی رنگوں کی تفہیم بانٹنے کے لیے خود کو پیش کرتی ہے۔
جوزف نارتھ(Joseph North)، تخلیق اور تنقید کے درمیان ایک متحرک تعلق کا بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” تنقید فنکارانہ پیش کش کا جائزہ لینے کی ایک سعی کا معاملہ ہے جو تخلیق کار اپنے کارگاہ زیست کے حاصل کی ممکنہ تعبیرات کو مدنظر رکھتے ہوئے قاری کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے ۔ "(5)
آل احمد سرور، تخلیق و تنقید کی باہمی جڑت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
"بڑے تخلیقی کارنامے بغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تخلیقی جوہر بغیر تنقیدی شعور گمراہ ہو جاتا ہے اور تنقیدی شعور بغیر تخلیقی استعداد کے بے جان رہتا ہے۔” (6)
تخلیق، تخلیق کار اور تخلیق کا قاری کی باہمی جڑتی تکوین کے مرکز میں، تنقید کو ایک مسلسل اور متعامل صورت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کا مقصد تخلیق اور نقاد کے درمیان مستقل مکالمے کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ تنقیدی مکالمے اور مباحث، روایتی تنقید کے مروجہ اصولوں کی بازیافت ، اور جدید نظریات و اطوار کی معاونت کے مابین تعاملاتی نقد و نظر کے ظاہری و باطنی مہین دائروں میں تشکیلی و تعبیراتی خد و خال تلاشنے کا سامان کرتی ہے۔ تنقید میں نئے زاویوں اور سانچوں کی ضرورت نہ صرف تخلیقی تنوع اور تعبیر کے لیے ایک موضوعی ترجیح ہے، بلکہ یہ تخلیق کار اور نقاد کے شعوری و ادراکی تحرک اور مسلسل ارتقائی علامتیت کی دلیل بھی ہے۔ زمانی و مکانی تغیرات جہاں کثیر جہتی تخلیقی تجرباتی تنوع کا سامنا کرتی ہے، وہاں موضوعاتی تہدید اور طرزِ تَعْدِید کی ایک منفرد صورت سامنے لاتی ہے۔ دوسری جانب ایسی تخلیقی تجسیم کی تفہیم و تعبیر تک رسائی کے لیے کثیر جہتی تجزیاتی تنوع اور فِکْری مِنْہاج کے ارتقاء کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔ ادبی تنقید، تخلیق شناسی اور تخلیقی ارتقاء میں ایک فعال ادبی آلے کے طور پر کام کرتی ہے۔ تخلیق و تنقید میں نت نئے رجحانات، تحاریک اور انفرادیت کی ضرورت ، ایک فطری فکری تجسس ہی نہیں بلکہ ایک ادبی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے اور عالمی ادب کے رجحانات ، ادبی تخلیقیت، شناخت اور ادراک سے متعلق تنقیدی رجحانات کی تازگی کے متقاضی ہیں۔
(2)
اردو ادبی تنقیدی مزاج کیا ہے اور کیا یہ تخلیقی معاونت کی ذمہ داری نبھاتا ہے! علمِ بیان و معنی؛ لفظ و معنی کی باہمی جڑت سے تشکیل پانے والے جملوں کی بُنت اور بناوٹ کا شعور؛ ترسیل خیالات سے ابھرنے والے خدو خال کا ادراک ایک علمی، شعوری اور ادراکی مثلث کی تمثیل ہے جہاں تکوین کے مرکزے میں جنم لینے والے سوالات در حقیقت تخلیق، تخلیق کار اور تخلیق کے قاری کا سانجھا رویہ ہوتا ہے جو تینوں پر متنوع معنویت اور متعدد زوایہ ہائے تفہیم کے ساتھ مقصود تخلیق ہوتا ہے۔ تخلیق ، کثیر جہت یا متنوع المزاج صورتوں میں، انسانی تسکین اور بالیدگی روح کے لیے ایک تخلیقی پیمانے کے طور پر کام کرتا ہے، جو کیفیات و جذبات، احساسات و خیالات اور تجربات و انتقادات کے بہاؤ اور دھارے پر بڑھتا ہے۔ تخلیق اپنے ہر روپ میں، چاہئے رنگوں کے جہان سے کشیدایک نیا جہانِ رنگ و بُو ، قَلَمِ مُو کے اندازِ رقص سے پھوٹتے نقوش، رقص کناں ابدان کی نیم دائروی پھیروں کی دھمال، اصولِ نغمگی کی تان پر اُترے موسم کا مزاج ہو، تخلیقی اظہاریہ زندگی کے شعور کی کثیر سمتی جہتوں کی عکاسی کرنے والے آئینے کا کام کرتا ہے۔ عَین بَعَین تنقید، متنوع المزاج تخلیقی صورتوں کی علمی، فکری، شعوری معاونت کے لیے خود کو پیش کرتی اور تخلیق و تنقید کے مابین باہمی مکالمے بلکہ ایک خوبصورت، پُرمغز اور بامعنی مکالمے کی عملی صورت کا سامان کرتی ہے۔
سید محی الدین قادری زورؔ، تنقید کا مقصد بیان کرتے ہوئے ہیں:
"تنقید کا بنیادی مقصد صرف منفی پہلوؤں کی مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا درست تجزیہ کر کے مثبت پہلوؤں کی نشاندہی ، جاندار تجزیہ اور فنی تشریح کو فروغ دینا بھی ہے۔”(7)
اگرچہ تنقید ، نقد و نظر کا معاملہ ہے لیکن یہاں نقد و نظر سے ہرگز مراد وہ تجسیم و تفہیم نہیں جو تخلیق کی صورتِ اولین تھی اور نہ ہی اس سے مراد تخلیق کی بے پردگی ہے بلکہ یہاں اس سے مراد تخلیق کی صورتِ دِیگَر ہے جو ادراکی تفہیم و تجسیم کا حاصل ہے جس کے کئی ایک روپ بھی ہو سکتے ہیں اور تخلیقی خوب صورتی و غنائیت بھی اس کا مطمعِ نظر ہوتا ہے۔
ٹیجو کول (Teju Cole)، تخلیق وتنقید کی باہمی معاونت کا تعلق کھولتے ہوئے لکھتے ہیں:
” تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک غیر محفوظ حدود کی عصری تفہیم کی عکاسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق و تنقید کس طرح ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہیں اور کس طرح ایک دوسرے کو متحرک کر سکتے ہیں۔” (😎
زیڈی اسمتھ (Zadie Smith)، رقمطراز ہے:
"تخلیق کے ساتھ ناقدانہ وابستگی کسی کے اپنے تخلیقی عمل کو تشکیل دینے کی طاقت رکھتی ہے، جو تخلیق کار اور نقاد کے درمیان باہمی تعلق کو اجاگر کرتا ہے۔” (9)
تنقید، تخلیق کا علمی، ادبی، شعوری اور ادراکی جائزہ لینے کے بعد ہی اس کی تعمیر و تعبیر اور خوبیوں خامیوں دونوں کو کھولتی اور تسلیم کرتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے، تنقید ایک دوہرا فعل ہے، جس میں نہ صرف تنقیدی باریکیوں کی سختی، درشتگی اور درستگی ہے بلکہ اس میں ایک تخلیقی معاونت کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اردو، تنقیدی مزاج میں سختی اور درشتگی کا عنصر تو روزِ اول سے موجود رہا بلکہ تنقید ایک ممکنہ اور مضبوط ہرا سگی آلے کے طور پر نمایاں رہی ۔ اگرچہ کہیں کہیں تخلیقی معاونت نے اسے تخلیق کی صورتِ اولین سے زیادہ قبول صورت بھی بنایا لیکن مجموعی معاملہ مذکورِ اول جیسا رہا ہے۔ یُوں ، پُرمغز شعوری فہم اور ادراکی بازیافت سے بھر پور تنقید، تخلیقی معاونت کا ایک ذریعہ ہوتی بن کر سامنے آٸی ، جو محض تنقید سے بالاتر ہے۔
نور الحسن نقوی، تنقیدی ناگزیریت اور تخلیقی معاونت بارے لکھتے ہیں:
"تنقید اور تنقیدی شعور ، انسانی وجود کے دیگر تمام پہلوؤں کے ساتھ ادب کے دائرے میں بھی لازمی جزو ہے۔ تنقید کی دو صورتیں ہیں: ایک جو تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار کی مدد کرتی ہے، اور دوسری جو تخلیق اورقاری کے درمیان تعلق قائم کرتی ہے۔”(10)
ٹی ایس ایلیٹ (T. S. Eliot) تنقید و تخلیق کی باہمی معاونت کے بارے رقمطراز ہیں:
"تنقیدی عمل تخلیقی کوششوں سے الگ نہیں ہوتا۔ بلکہ، یہ ادب کی زندگی میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔”(11)
ڈاکٹر سلیم اختر، "تخلیق، تخلیقی عمل اور تخلیقی شخصیت کا مطالعہ” میں لکھتے ہیں:
"اگرچہ تنقید کو ہمیشہ سے تخلیقات کی پرکھ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تنقید کے وسیع تناظر کو محدود کر دینے اور عمل نقد کے وسیع اور پرتنوع کُل میں سے محض ایک یا چند اجزاء منتخب کر کے محیط بے کراں کو ذرا سی آبجو میں مقید کر دینے کے مترادف ہے۔”(12)
تخلیق کی تنقیدی معاونت کا معاملہ ایک مقابل جہانِ جہات کی فکری و شعوری پیش کاری سے پرے ایک نئے جہانِ جہات کی بازیافت کی ادراکی تفہیمات کی کھوج کا معاملہ ہوتا ہے۔ تخلیق کو تنقیدی نقطہ نظر سے پرکھ کے معیارات پر رکھ کر، اس کا موازنہ فنکارانہ مہارت سے پیش کی گئی تخلیق کی تعبیر سے کیا جا سکتا ہے۔ تنقیدی عمل، تخلیقی عملی کی طرح شدتِ احساس پر پھوٹنے والے جذبات اور کیفیات سے ہوتا ہے جو یقیناً ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے جو تخلیقیت کے دائرے کو بڑھاتا ہُوا تخلیق کار سے ناقد اور ناقد سے تخلیق کار کی جانب آتا ہے۔ اگرچہ یہاں تخلیقی وجود بظاہر ایک ہی رہتا ہے لیکن تخلیقی باطن ادراکی جُون مطابق ڈھل جاتا ہے اور تخلیق کار کا روپ ، ناقد کا روپ ہو جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں تخلیقی کوتاہیوں اور بدصورتیوں کو تنقیدی باریکیوں کی معاونت سے ایک نئی تفہیم کے قالب میں منتقل کیا جانا ، ایک نئی تخلیقی کشٹ کا سلسلہ ہے جہاں تخلیق اپنی ادراکی تجسیم کی صورت ٹھہرتی ہے۔ یُوں تخلیقی معاونت کا کردار، تنقیدی مزاج کی علمی و ادبی قبول صورتی کا ایک ایسا مضبوط حوالہ اور جواز فراہم کرتا ہے جس احساس موجود ہو البتہ تشکیل و تکمیل کی صورت ہنوذ تِشْنَہ لَبی کی سی رہتی ہے ۔
(3)
کیا اردو ادبی تنقیدی کی نئی تفہیم اور نئے تنقیدی نظریہ کی ضرورت اور گنجائش باقی ہے ! گزشتہ کئی دہائیوں سے اردو ادبی تنقیدی دبستان خصوصاً کہانی سے جڑی اصنافِ ادب یعنی ناول اور افسانہ کے تنقیدی مزاج میں یکسانیت اور مغربی تخلیقی و تنقیدی سانچوں کا برتاؤ جہاں تنقیدی معیارات کو ادبی مقامیت کے کٹہرے میں جواب نہیں دے پایا وہاں اس نے کہانی کے وجود کا مقدمہ بھی کمزور کیا ہے البتہ شاعری کو مخصوص استغاثہ کی سہولت کہیں کہیں میسر رہی ہے مگر سخن کو متن کا نام دے کر اس کی پرکھ پرچول کو ترجیح دیتے ہوۓ جس طرح تخلیق کار کو باہر نکال پھینکنے کو نظریہ بنا کر پیش کیا ہے اس نے پورے تخلیقی منظر سے روح نکال کر بے جان کر نے کی کوشش کی ہے ۔اردو ادبی نظریات و تحریکات کے الجھاوے میں، تنقیدی گھمبیرتا میں مذکورہ مسٸلے کا ادراک اور اس سمسیا سے نکلنے کی کوشش کسی تخلیقی سرگوشی کی بازگشت کی طرح دراصل نئی تمثیلات کا ظہور عصری ادب اور تنقیدی دبستان کے درمیان تخلیقی رواقِ حیات کے مصداق ہے۔ تخلیقی و تنقیدی ادبی ارتقاء کا معاملہ ، نئی ضرورتوں ، ترجیحات اور تشکیلات سے جڑا ہے جو جہاں تخلیقی تازگی کی خواہش رکھتا ہے وہاں تنقیدی تازہ کاری کی امید، دراصل تخلیق کی بقاء کی امید جیسی ہے۔ اردو تنقیدی ادب کے موجودہ نظریات، علمی و ادبی اور زمانی و مکانی اعتبارات سے قابلِ قدر ہونے کے باوجود حقیقیقت میں اپنی قدر اور قبولیت کھو چکے ہیں لہٰذا عصری شعری و ا فسانوی نثری تجربات پیچیدگیوں کو سمیٹنے، سمجھنے اور نبیڑنے کے لیے امکانی صورتوں کے مقابل نئے تجزیات و تشریحات کے متقاضی ہیں۔
ہنس برٹنز (Hans Bertens) ادبی نظریہ کی ضرورت و اہمیت کو مدنظر رکھ کر لکھتی ہے:
"ایک وقت تھا جب ادبی متون اور ادبی نظریہ کی تشریح دو مختلف اور تقریباً غیر متعلق چیزیں لگتی تھیں۔ تاہم، پچھلے تیس سالوں میں، تشریح اور نظریہ ایک دوسرے کے اس قدر قریب آئے ہیں کہ متن کی تشریح ، نظریاتی نقطہ نظر کے بغیر اور نظریہ تشریح کے بغیر مکمل دکھائی نہیں دیتا ہے۔”(13)
سید احتشام حسین، "ادبی تنقید کے مسائل” میں لکھتے ہیں:
"ماحول، تشکیلِ شعور کو متاثر کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بے ساختہ، شدید اورآفاقی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا، تنقیدی عمل کی اساس ، تخلیق کی فکری اساس ہے جو علمی، ادبی اور سماجی اثرات کا حاصل ہوتی ہے جسے خارجی اثر پذیری کہہ سکتےہیں۔”(14)
نظریہ کیا ہے! ایک قیاس یا نکتہ نظر جس کا مقصد کسی چیز کی وضاحت کرنا بلکہ خاص اصولوں یا نکتہ نظر کی روشنی میں بیان کرنا ؛ ایک رجحان یا سوچ کے نتائج سے کشید تجریدی سوچ کی ایک عقلی قسم؛ مشاہدہ یا تحقیق، غور و فکر یا عقلی سوچ کی ترجمانی کا سلیقہ ؛ قابل فہم یا سائنسی طور پر قابلِ قبول عمومی اصول یا مظاہر کی وضاحت کے لیے پیش کردہ اصولوں کا مجموعہ؛ عمیق مطالعہ اور منظم مشاہدے کی بنیاد پر مظاہر کی ایسی وضاحتی کوشش کہ جس کو رد ، قبول یا درست کیا جا سکے؛ انفرادی یا مجموعی خیالات کا تسلسل جسے اجتماعی قبولیت حاصل ہو؛ یہ سب کچھ ایک نظریہ ہے اور یہی ادبی نظریہ کے خدو خال کی عملی تصویر و تشہیر کی صورت بھی ہے۔
سارا اَپسٹون (Sara Upstone) لکھتی ہے:
” مطالعہ اور مشاہدہ کے دوران جنم لینے والے سوالات کے جوابات جن کا تعلق معنی، فعل اور تاثیر سے ہوتا ہے، کا مجموعہ ادبی نظریہ ہے۔ متن کے جوابات اکثر غیر متوقع اور پیچیدہ ہوتے ہیں جب کہ متن کے بارے میں سوچنے کے خاص طریقے کا حصول ادبی نظر یہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔” (15)
اردو ادب کی تنقیدی روایت کا باقاعدہ آغاز حالیؔ کی تنقیدی روایت سے جوڑا جاتا ہے جب کہ بعد کے تنقیدی دبستانوں میں حسن عسکری کی تجزیاتی تنقید ، رومانوی تنقید سے وابستگان میں مجنوں گورکھ پوری اور سجاد انصاری؛ تاثراتی تنقید کے روحِ رواں میں شبلیؔ، آزادؔ، عبدالرحمٰن بجنوری، نیاز فتح پوری، رشید صدیقی؛ جمالیاتی تنقید میں مہدی افادی، اثر لکھنوئی؛ مارکسی، تاریخی اور سماجی تنقیدی نظریات کے حامی اختر حسین رائے پوری، احتشام حسین، ممتاز حسین ایک اہم حوالے کے طور پر موجود ہیں لیکن عملی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حالیؔ نے ایک
نظریاتی فریم ورک پیش کرنے کی کوشش بلکہ قدرے کامیاب کوشش کی تھی جب کی بعد میں کی جانے والی تنقید نے یا تو پہلے سے موجود سانچوں پر اکتفا کیا یا پھر مغربی تنقید کو مشرقی پیرہن میں سمونے کی کوشش کی۔ مشرقی تنقیدی روایت میں مغربی تنقیدی روایت کی در اندازی یا اثر پذیری نے جہاں مشرقی تاثیر، مقامی نظریہ اور اردو ادبی سانچوں کو متاثر کیا وہاں ارتقائی عمل کو بھی روک دیا۔ تخلیقی و تنقیدی عمل کا تسلسل ایک ٹھہراؤ یا جمود کا شکار ہو جائے تو یہ صرف ادبی منظر نامے کا سکوت ہی نہیں ہوتا بلکہ تہذیب، ثقافت، سماج، ،معاشرت ، ذہنی، فکری، شعوری عدم تسلسل اور خلا کی علامت بھی ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں بگاڑ، مجروح یا مخلوط نظریات اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کے نتائج دیر تلک اثر انداز ہوتے ہیں۔ اردو تنقیدی روایت میں مروجہ ڈھانچے مغربی روایت کی دین ہیں جن میں تشریحی، سائنسی، تجزیاتی، استقرائی، تقابلی، رومانی، جمالیاتی، تاثراتی، تاریخی، عمرانی، نفسیاتی، مارکسی، ہٸیتی، اسلوبیاتی، ساختیاتی اور امریکی طرزِ تنقید کے نظریہ نو انسانیت اور شکاگو فکر کی دراندازی اپنی تمام تر حاکمیت کے ساتھ اردو ادبی روایت کی علمی، ادبی اور فکری تربیت کرنے کا جواز لیے کارفرما ہے۔ اگرچہ گوپی چند نارنگ نے ‘ساختیاتی’ اور ‘پس ساختیاتی’ نظریہ تنقید کو اردو قالب کی شناخت دینے کی کوشش کی لیکن اس کا مغربی تاثر بہر طور غالب رہا ۔ البتہ حامدی کاشمیری کے تنقیدی نظریہ اکتشافی تنقید جو ‘قائم بالذات’ نظریہ کے ساتھ ادب سے ‘باطنی’ تعلق کی توثیق کرتی ہے لیکن اپنی انفرادیت اُس وقت کھو دیتی ہے جب کہیں کہیں ‘ہیتی تنقیدی نظریہ’ سے قریب کی تاثیر محسوس ہونے لگتی ہے یا کہیں کہیں ‘ساختیاتی’ اور ‘اسوبیاتی’ کے آس پاس گھومتی دکھائی دیتی ہے۔البتہ حامد کاشمیری ‘تمدنی تنقیدی نظریہ’ کا بیان کرتے ہوئے کچھ حد تک منفرد دکھائی دیتے ہیں جہاں ادبی ماہیت، فردیت اور علمیت کے ساتھ فکری و جمالیاتی تشریحات نمایاں ہوتی ہیں۔ اسی روایت میں ڈاکٹر فہیم اعظمی کی ‘نسوانی تنقید’ کی آواز بھی مغربی ‘پدری جبریت’ کا تسلسل ہی ٹھہرتا ہے۔ دوسری جانب ‘مکتبی تنقید’ نے ایک نظریہ بلکہ ‘نظریہ ضرورت’ جیسی شکل اختیار کرکھی ہے جس میں نظریے کا فریم ورک ہونے کے باوجود تعلیمی ڈگری کے حصول سے زیادہ کا معاملہ طے نہیں ہوتا ہے جب کہ ‘تقریباتی تنقید’ نے تخلیق یا تخلیق کار کی معاونت سے زیادہ عدم تعاون کی صورت بنا رکھی ہے۔
فرحت عباس شاہ، ادراکی تنقید کا جواز اور نئی فلسفیانہ ضرورت کی وجوہات بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"مغربی رجحانات کی سرعت انگیز دَر اندازی، نفسیاتی بحران اور فرد کے بے معنی ہونےکا احساس، مغربی نظریات کا پرچار، فکری آزادی پر قدغن، ادراک کی داخلی تعبیر کی بجائے خارجی ڈھانچوں کا رواج، منہدم شناخت اور معنویت، مصنوعیت کا رواج اور لاحاصل و غیر سنجیدہ مکالمے کی فضا کے درمیان ادراکی تنقید کا جواز توجہ طلب ضرورت جیسا ہے۔ "(16)
ادبی تنقید کے ارتقاء کے لیے ایک لازمی امر عصری ادب کے اندر آوازوں کے باہمی ربط میں مضمر ہے۔ مروجہ تنقیدی تشریحات و نظریات، روایتی اندازِ نقد و نظر کا حاصل ہیں جو جدید ادبی منظر نامے میں موجود شناختوں اور تجربات کے متنوع مزاج کو سمجھنے میں اکثر تشنہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی در پیش صورت میں ایک نیا اندازِ فکر، نئی تشریحی عمق اور نئے نظریات کی ضرورت لازم ہوتی ہے خاص طور پر جس کی جڑت اور جڑیں باہم مربوط اور معاونت کے جذبے سے معمور ہوں، وہی تنقیدی نظریہ عصری تقاضوں کی خلیج پاٹ سکتا ہے کہ جس سے فکری و تخلیقی شعور، تنقیدی ادراک ، تخلیق و تنقید اور تخلیق کار و نقاد کی شناخت، اور دیگر عصری موضوعات و معاملات جنس، جذبہ، نسل، نظام اور ایسے بہت سے تند و تیز اور عمیق پہلوؤں کا ادراکی تجزیہ پیش کرتا اور معاصر ادبی روایات کا ایک بھر پور منظر نامہ کی تشکیل کرتا ہے۔ ادبی اظہار کی مسلسل پھیلتی ہوئی کائنات میں، انواع کی حد بندی کرنے والی روایتی حدود غیر محفوظ ہو چکی ہیں، ایسی صورت ایک نئے ادبی منظر نامے کا دَر وَا کرتی ہے جہاں متنوع المزاج اور متعدد الزاویہ عناصر باہمی اشترا کات کی فضا بناتے اور ‘ہائبرڈٹی’ یا ‘مخلوطیت’ کو جنم دیتے ، فکری و جمالیاتی بدلاؤ کا احساس دلاتے، شعوری و ادراکی تشریحات کی حدیں دراز کرتے اورخود کی تشکیل نَو کرتے ہیں۔ یہی وہ غالب رویہ ہے جو نئی تنقیدی فکر، تشکیل اور تعامل کی پیشن گوئی کا اشارہ دیتا ہے۔ عصری منظر نامے میں بدلاؤ اور رچاؤ کے درمیان ادبی تشکیلات کا بدلاؤ ایک ایسا ضروری امر بن جاتا ہے جہاں دیگر اہم ترین عوامل میں ڈیجیٹلاٸیزیشن کا انفلوٸنس بھی نظر آتا ہے جس نے تخلیق اور قاری کے ساتھ ناقد کی تفہیمی تربیت کو بھی متاثر کیا ہے ۔ نئے تنقیدی نظریہ کی ضرورت یا پیش رفت ، مقدمین کی یکسر رد یا ردِ عمل کا معاملہ نہیں بلکہ پیش منظر کے ادبی منظر نامے میں ایک نئی ضرورت، نوعیت اور فریم ورک کی اثر پذیری کا معاملہ ہے جو علمی و فکری ضرورتوں کی طلب اور کھوج سے جڑا ہے۔
(4)
ادراکی تنقید کیا ہے اور یہ کس طرح تخلیقی معاونت کا کردار نبھاتی ہے ! ادراکی تفہیم، تجربے یا اظہاری ردعمل کی تشکیل جو تخلیق کار اور تخلیق کے قاری کی جذباتی کیفیات کا نتیجہ ہے اور علم، عمل اور احساس کے باہمی تعامل سے جنم لینے والے تنقیدی اظہاریے کا پہلا نقطہ نظر ہے۔ یہ نظریہ اس بات پر مرکوز ہے کہ احساس اور سوچ ایک دوسرے پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ادبی یا تخلیقی تنقید کا میدان ، تخلیق، تخلیق کار اور تخلیق کے قاری کے مقابل امکانات کا ایک لا متناہی سلسلہ پیش کرتا ہے جس کی حد انفرادی ادراک کی تجسیم ٹھہرتی ہے۔ ادراکی تنقید سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ادرا ک کیا ہے اور اس کی تشکیل یا اس تک رسائی کب اور کیسے ممکن ہوتی ہے۔ ادراک ، معنوی سطح پر پانا، دریافت ، درک، عقل، سمجھ، پہنچ، رسائی ، فہم (فرہنگِ آصفیہ:137)؛ غیر محسوس چیزوں کا دریافت کرنا، عقل، فہم ، رشک (نور اللغات: 254)؛ ہوش، بوجھ، پوچھنا، پکنا (فرہنگ عامرہ: 23)؛ پانا، دریافت کرنا، عقل، فہم، رسائی (فیروز اللغات:79)؛ ادراک، احساس، تمیز (فرہنگِ ادبی لصطلاحات:148)؛ تفہیمی سطح پرفکر و شعور کی تعاملیت ہے جو فکری، استدلالی اور تعبیراتی مزاج رکھتی ہے(کولنز:263)؛ شعور و استدلال کا باہمی عمل جو نتیجہ خیز بھی ہو؛ چیزوں یا لفظوں کو جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کی شعوری کوشش(میریم ویبسٹر:501)؛ ادرکی استدلال کی اساس خیال، مرکزیت، اور انفرادی طرزِ تعامل ہوتی ہے جو تخلیق اور تنقید کے درمیان تعلق کی نوعیت کو متنوع الزاویہ تفہیم دان کرتی ہے(کیمبرج:170)۔
فرحت عباس شاہ، ادراک کی درجہ بندی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
” ادراک کو نوعیت کے اعتبار سے تین درجوں: انفرادی ، گروہی اور اجتماعی ادراک میں جب کہ ماہیت کے اعتبار سے دو سطحوں باطنی اور خارجی پر سمجھنے کی کوشش ادراک کی مزید برتیں کھولنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔”(17)
نِک بریزبے (Nick Braisby)، ادراک کو نفسیات سے جوڑتے ہوئے لکھتی ہے:
"ادراک کی نوعیت ، ایک گہری فکری استدلال کی ہے جو متنوع ، عقلی اور مدلل استفسارات کو جنم دیتی ہے جو عمومیت سے دور انفرادیت اور فکری تشریحات کا معاملہ ہوتا ہے ۔” (18)
جان ڈی ہوور(Jan De Houwer)، لکھتے ہیں:
"ادراک کی اصلیت، تخلیق کی فکری و شعوری ساختمانیت یعنی کیوں اور کیسے کو بیان کرنے کے لیے ثُلٰثِیَّت کا کردار نبھانا ہوتی ہے۔” (19)
اِدْراک، اگر خیال، فہم اور شعور کی تعاملیت کا حاصل ہے تو ادراکی تنقید ،احساس کی تشریح سے جنم لیے والا ایک علمی، عقلی اور فکری تاثر ہے جومنطقی استدلال کی خصوصیت رکھتا ہے جب کہ ادبی صورتوں میں اس سے مراد وہ فکری و شعوری کوشش ہے جو "سینسوریم ” (Sensorium) کے اندر کسی احساس کی کروٹ سے جنم لیتی ہے۔ ادراک کا تصور علمی تفہیمات سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے ایک باشعور شخص یا ذہن خود خیالات یا احساسات کو سمجھتا اور ان کی ترجمانی کرتا ہے ۔
فرحت عباس شاہ، ادراکی تنقید کی تعریف و تفہیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"باطنی اور خارجی عناصر کا اپنا اپنا ڈی این اے ہوتا ہے۔ ادراکی تنقید اس ڈی این اے تک رسائی اور اس کے متعلق اس تجزیے کو ممکن بناتی ہے جس کے بعد نہ صرف کسی تخلیقی کام کا ادراک آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس پر نقد و نظر کی سمت بھی درست رہتی ہے اور اسے منتقل کرنا بھی مشکل نہیں رہتا ۔”(20)
مائیکل برک(Michael Burke) لکھتا ہے:
"ادراک ، علمی ادبی مطالعات میں ذہنی تجزیات کی تصویر کشی کے طور پر کھلتا ہے جو ایک تہذیبی و ثقافتی رجحان یا میلان سے بڑھ کر انفرادی تشکیل کا معاملہ بیان کرتا ہے ۔”(21)
فرحت عباس شاہ، ادراکی تنقید کا بنیادی مقصد لکھتے ہیں:
"ادراکی تنقید کا بنیادی مقصد فکری استحصال کرنے والی تھیوریوں کو رد کر کے تخلیقی سچائی کا دفاع کرنا ، حریتِ فکر اور تخلیقی عمل کی آزادی کی حوصلہ افزاٸی کرنا ، احساس تنہائی سے نجات دلانا اور تجزیاتی فکر کو تقویت دے کر اس کی حفاظت کرنا ہے۔”(22)
ادراکی تنقید، تخلیق اور تنقید کے درمیان تعلق کی ایک شعوری کھوج کے طور پر سامنے آتی ہے، جو تنقیدی ترجیحات کی ایک بھرپور ٹیپسٹری(Tapestry) کے طور پر اظہار اور ادراک کے درمیان درست سمت کا تعین کرتی ہے۔ تنقیدی اظہاریے کا یہ انداز، ایک ادبی "چیاروسکورو”(Chiaroscuro) جیسا ہے، جس کا مقصد تخلیقی مبہمات کو آشکار کرنا اور ایک نئی زندگی عطا کرنا ہے ۔ ادراکی تنقید بنیادی طور پر تخلیق کے داخلی دائرے میں داخل ہوتی ہے، ذہنی منظر کشی اور امیجز کے پیچیدہ اور متنوع دائروں کے درمیان معلوم سے نامعلوم اور نامعلوم سے نئے معلوم کی سمت سفر کا آغاز کرتی ہے۔ ادبی تنقید میں روایتی نقطہ نظر کے برعکس، یہ خاص طریقہ داخلیت اور موضوعیت کے تناظرات میں آتا ہے جہاں تنقید کا عمل غیر فعالیت سے پُرجوش و بھرپور فعالیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ ادراکی تنقید کی فعالیت، تخلیقی معاونت کا کردار بھی بطریقِ احسن نبھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
(5)
ادراکی تنقید، کیوں کر تخلیقی شعریت کی تفہیم و تجسیم کا معاملہ نبیٹرتی ہے ! ادراکی تنقید ، ایک متحرک اور کثیر جہتی صنف ہے، جو تخیلاتی مسافرت، تخلیقی کشٹ، لسانی اختراعیت اور جذباتی تموج کی باہمی وارفتگی سے بُنی ہوئی ہے ۔ بنیادی طور پر، ادراکی تنقید ایک عمیق باطنی اور خارجی عناصر کی تعاملیت کا حاصل ہے، جو تخلیقی جذبات، احساسات، اور مشاہدات کو ایک مخصوص ندرت اور مستند وتازہ پیرہن فراہم کرنے کے لیے اظہاری منہج فراہم کرتی ہے۔ تخلیقی شعریت کے تعاملات کی تہہ داریوں کو انفرادیت کا قالب عطا کرتی ہے جہاں دیگر تخلیقی آلاتی مشغولیت، تخیل و تشکیل، علامت و ابہام، لفظ و معانی کے اختراعی ڈھانچوں اور صوتیاتی آہنگ و سنگم کو جانچنے اور نبیڑنے میں فعال کردار نبھاتی ہے۔
ادراکی تنقید کے وصفِ اولین کا اظہاریہ کچھ ایسی صورت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے:
” تخلیقی عمل میں جس طرح کوئی بھی تخلیق کار بطور ایک فرد اپنے انفرادی ادراک کا مظاہرہ کرتا ہے اسی طرح اسے دیکھنے سننے اور پڑھنے والا اپنے انفرادی ادراک کی روشنی میں اس سے حظ اٹھاتا ہے یا نہیں اٹھاتا۔ "(23)
رومن انگارڈن (Roman Ingarden)، لکھتا ہے:
"ادراک کا عمل ، ہر ایک جمالیاتی عنصر کے ذاتی مشاہدہ سے جنم لیتا ہے ، جو حاصل تخلیقی تشریحات کی ترسیل میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ "(24)
فرحت عباس شاہ، حظ کا معاملہ تخلیقی ادراک اور اظہاریے سے جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں:
” تخلیق کار کا تخلیقی ادراک اور اظہار جتنا ذاتی یا آفاقی ہوگا اپنے خارج میں وہ اتنا ہی ذاتی یا آفاقی سطح پر قبولیت پائے گا۔”(25)
ادراکی تنقید، تخلیقی شعریت کی تفہیم و تجسیم کا معاملہ بطریقِ احسن نبیٹرتی دکھائی دیتی ہے ۔ اول اول مشرقی و مغربی تخلیق و تنقید کے بیچ موجود لکیر کو مدہم و مدغم کرنے کی کوشش کی بجائے ایک واضح اور مدلل بیانیہ سے نبیٹرنے کی مضبوط و محفوظ صورت، ایک عملی صورت کا پیش نامہ لکھتی ہے۔ اردو ادبی اصناف میں بیشتر کا حوالہ مغربی ادبی روایت سے جوڑا جاسکتا ہے لیکن یہ حوالہ چاہے آخری حوالہ بھی ہو پھر بھی درست نہیں ہے۔ اردو ادب میں نثر و شاعری کی تخلیقی شعریت کا معاملہ مشرقی سانچے اوربرتاؤ کا متقاضی ہے جو ایک علمی و ادبی ضرورت کے ساتھ تخلیقی استحقاق کا معاملہ بھی ٹھہرتا ہے۔ غزل کی شعریت تو کجا سرنامہِ صنف کا بدل بھی مغربی شعری روایت میں ڈھونڈ لینا مشکل ہو جاتا ہے، دوسری جانب شعری قالب کی بُنت کی خوبصورتی کے ساتھ مشرقی لحن و آہنگ کی تاثیر بھی اسی زمین کا خاصہ ٹھہرتی ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو ادب کے بیشتر تنقیدی معیارات، رجحانات یا دبستان تخلیق کی براہ راست پرکھ کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ پہلے سے موجود نظریات کی اثر پذیری اور معاونت کی ضرورت کا حاصل ہوئے ہیں جب کہ ادراکی تقید کا مقصد تخلیق و تنقید کی براہ راست معاونت ہے۔ اس کی ایک وجہ ادراک کی کلیت کی حامل خصوصیت ہے جو علم وفن تک محدود نہیں بلکہ تہذیب و معاشرت کی پرکھ کا حوالہ بھی ہے کیوں کہ ادراکی تقنید، تخلیق کو تخلیقی جواز کے آئینے میں دیکھتی ہے۔ ادراکی تنقید کا ایک اور اہم نکتہ اصلی و نقلی ادب، تخلیق اور تنقید یا حقیقی و مصنوعی ادب، تخلیق اور تنقید کے درمیان موجود خط ِفاصل کی نشاندہی کرنا اور ادبی، تخلیقی و تنقیدی معاونت کے معاملہ کو نبیڑنا بھی ہے۔ ادراکی تنقید، انفرادی، گروہی اور اجتماعی ترجیحات کی سمت متعین کرتی ہے جس کا مقصد مذکور کی اپنی اپنی سطح پر موجود ساکھ کا پرتو پیش کرنا ہے۔ لہٰذا جب تک نقلی و اصلی یا حقیقی و مصنوعی کی حدِ فاصل کا تعین نہیں ہوگا، مذکور کا حاصل بھی نشان زد رہے گا۔ ادراکی تنقید کا ایک اہم کام فکشن کی تخلیقیت کو مشرقی معیارات کے درمیان رکھ کر کھولنے کی کوشش ہے جو اردو نثر کی تخلیقیت کا معاملہ نبیڑتی ہے۔ ناول و افسانہ کی تخلیقیت کی کھوج کا ادراکی معاملہ روایت سے موجود تک کے چنیدہ حوالوں کو ادراکیت کی تفہیم و تجسیم تک نبھاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات و حواشی:
(1) احمد، کلیم الدین، 1967ء، سخن ہائے گفتنی، پٹنہ، کتاب منزل سبزی باغ، ص251۔
(2) فلسکی، ریٹا، 2008ء، Uses of Literature، آکسفورڈ، بلیک ویل پبلشنگ لمیٹڈ، ص21۔
(3) حسین، سید احتشام، 2009ء، تنقیدی نظریات، جلد اول، لکھنؤ، اترپردیش اردو اکیڈمی، ص15۔
(4) ایگلٹن ،ٹیری، 2005ء، The Function of Criticism، لندن، ورسو بکس پبلشنگ کمپنی، ص17۔
(5) نارتھ، جوزف، 2017ء، Literary Criticism: A Concise Political History، لندن، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، ص44۔
(6) آل احمد سرور، 2009ء، تنقید کیا ہے؟، مشمولہ: تنقیدی نظریات، مرتب: سیداحتشام حسین، جلد اول، لکھنؤ، اترپردیش اردو اکیڈمی، ص173۔
(7) زورؔ، سید محی الدین قادری، 1960ء، روحِ تنقید، لاہور، مکتبہ معین الادب، ص75۔
(😎 کول، ٹیجو ، 2016ء، Known and strange things : essays، نیویارک، رینڈم ہاؤس، ص175۔
(9) اسمتھ، زیڈی، 2009ء، Changing My Mind: Occasional Essays، لندن، پینگوئن گروپ، ص67۔
(10) نقوی، نور الحسن،1990ء، فن تنقید اور اردو تنقید نگاری، علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص7۔
(11) ایلیٹ، ٹی ایس،1986ء،The Use of Poetry and the Use of Criticism، فیبر اینڈ فیبر لمیٹڈ، لندن، ص12۔
(12) اختر، ڈاکٹر سلیم، 1997ء، تنقیدی دبستان، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ، ص 15۔
(13) برٹنز، ہنس، 2014ء، Literary Theory: The Basics، لندن، روٹلیج، ص1۔
(14) حسین، سید احتشام، 2013ء، ادبی تنقید کے مسائل، مشمولہ: تنقید کی جمالیات، مرتبہ: عتیق اللہ، جلد:1، دہلی، کتاب دنیا، ص357۔
(15) اَپسٹون، سارا، 2017ء، Literary Theory: A Complete Introduction، لندن، انگلش یونیورسٹیز پریس، ص7۔
(16) شاہ، فرحت عباس، 2023ء، اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، کراچی، رنگِ ادب پبلی کیشنز، ص30۔
(17) ایضاً ، ص33۔
(18) بریزبے، نِک، 2012ء، Cognitive Psychology، آکسفورڈ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ص3۔
(19) ہوور، جان ڈی، 2020ء، The Psychology of Learning، لندن، ایم آئی ٹی پریس، ص17۔
(20) شاہ، فرحت عباس، 2023ء، اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، کراچی، رنگِ ادب پبلی کیشنز، ص32۔
(21) برک، مائیکل، 2017ء، Cognitive Literary Science، آکسفورڈ، بلیک ویل پبلشنگ لمیٹڈ، ص28۔
(22) شاہ، فرحت عباس، 2023ء، اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، کراچی، رنگِ ادب پبلی کیشنز، ص31۔
(23) ایضاً ، ص34۔
(24) انگارڈن ، رومن ، 1973ء، Cognition of the Literary Work of Art، ایونسٹن، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی پریس، ص177۔
(25) شاہ، فرحت عباس، 2023ء، اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، کراچی، رنگِ ادب پبلی کیشنز، ص34۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تحقیق

علامہ شبلی ؒ بحیثیت مدیر : ڈاکٹرمحمدالیاس الاعظمی

علامہ شبلیؒ(۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء)نے مدیرکی حیثیت سے جو کارنامے انجام دئے اگرچہ گردش ایام نے ان کے نقوش دھندلے کردئے ہیں، تاہم
تحقیق

غالبؔ کا مابعدنوآبادیاتی مطالعہ : محمد عامر سہیل

prose in the colonial context Ghalib’s Muhammad Amir Sohail Abstract: Ghali is a great urdu poet.His poetry is full of