قمر رضا شہزاد
اے مرے سچے پیمبر
میں ترے ادنی غلاموں کا غلام
تجھ پہ طائف میں برستے پتھروں نے
کس کے سینے کو نہیں چھلنی کیا
اور اگر تو چاہتا
دونوں پہاڑوں کو ملا کر دشمنوں کو نیست و نابود کر سکتا تھا
لیکن
تیرے ہونٹوں پر دعا کے لفظ جاری تھے
اے مرے سچے پیمبر
آج تیرے امتی
تیرے مقدس نام کے نعرے لگاتے
پتھروں سے لاٹھیوں سے
میرے درپے ہیں
مرے چہرے سے یہ بہتا لہو
تجھ پر نثار
اس بھری بستی میں میرا کون یار
"میں کسے آواز دوں اپنی مدد کے واسطے
مجھ کو قاتل کے سوا پہچانتا کوئی نہیں”